لاہور میں دریائے راوی کے کنارے سیلاب زدہ تھیم پارک ہاؤسنگ سوسائٹی کے رہائشی محمد یاسین کہتے ہیں کہ انہوں نے آٹھ سال میں پائی پائی جوڑ کر تین مرلے کا مکان بنایا تھا، جو تقریباً ایک ہفتے سے حالیہ سیلاب کے پانی میں ڈوبا پڑا ہے اور وہ اہل خانہ سمیت موہلنوان امدادی کیمپ میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
انہوں نے نحیف آواز میں بتایا ’میرا تو دہرا نقصان ہوا ہے۔ گھر بھی پانی میں ڈوب گیا اور اس میں موجود بیٹی کے جہیز کے لیے اس آفت سے ایک ہفتہ قبل خریدا ہوا سامان بھی۔‘
محمد یاسین، جن کی بیٹی کی شادی 16 ستمبر کو ہونا طے ہے، کا کہنا تھا ’اب سوچتا ہوں کہ بیٹی کے سسرال والے خود ہی شادی ملتوی کرنے کا کہہ دیں۔ میں تو ان سے یہ بات نہیں کر پاؤں گا۔‘
ان جیسے پنجاب کے لاکھوں شہری حالیہ بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اور خصوصاً لاہور میں دریائے راوی کے دونوں اطراف موجود آبادیاں تقریباً مکمل ڈوب چکی ہیں۔
سیلاب سے متاثر ہونے والے زیادہ تر گھروں سے ابھی تک پانی نہیں نکل پایا ہے، جب کہ راوی اربن ڈویلپمنٹ اتھارٹی (روڈا) نے دریا کی زمین پر بنائی گئی 44 ہاؤسنگ سوسائٹیز کو غیر قانونی قرار دے دیا ہے۔
تھیم پارک نامی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی میں سب سے زیادہ گھر متاثر ہوئے اور اس کے مالک خوشی محمد کو انسداد بدعنوانی پنجاب نے گرفتار بھی کر لیا ہے۔
ترجمان انسداد بدعنوانی پنجاب کے ترجمان عبدالواحد نے جمعے کوانڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ’خوشی محمد نے مرحلہ وار سوسائٹی بڑھائی۔ کچھ نجی لوگوں سے رقبہ خریدا ہے لیکن زیادہ زمین دریا کی قبضہ کر کے پلاٹ بنائے اور لوگوں کو بیچ دی۔
’ان سے تفتیش کی جاری ہے۔ ابھی تک بہت ساری زمین کے این او سی پیش نہیں کیے گئے۔ ان کے علاوہ بھی غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘
محمد عمیر ریسکیو ٹیم کے ہمراہ کشتی میں تھیم پارک گئے، جہاں اپنے گھر کو 10 فٹ پانی میں ڈوبا دیکھ کر ان کا دل بھی ڈوب گیا۔
تھیم پارک کے ایک اور رہائشی محمد عدنان نے بتایا ’جب ہم نے یہاں گھر لیا تھا تو ہمیں سٹام دیا گیا، جس پر لکھا تھا کہ قسطیں پوری ہونے پر رجسٹری ملے گی، سڑکیں بنیں گے، بجلی، پانی گیس اور سیوریج ہو گا۔
’لیکن جب گھر لے لیا تو رجسٹری ملی نہ سہولیات دی گئیں۔ اس وقت نہ یہاں کوئی ادارہ آتا تھا نہ ہی ایل ڈی اے کا کبھی کوئی اہلکار آیا۔
’اب کہا جا رہا ہے کہ یہ غیر قانونی ہے۔ ہماری حکومت سے اپیل ہے اب ہمیں بے گھر نہ کیا جائے۔‘
حکومت پنجاب کے اعداد وشمار کے مطابق صوبے میں بہنے والے تین دریاؤں میں ریکارڈ سیلاب نے 38 لاکھ سے زیادہ افراد کو متاثر کیا، جب کہ چار ہزار سے زائد موضع جات اور دیہات اب تک پانی کی لپیٹ میں آ چکے ہیں.
پنجاب میں اس سے پہلے کبھی ان تینوں دریاؤں میں ایک وقت میں اتنا پانی نہیں آیا تھا۔ تاہم اب بھی دریائے ستلج اور چناب میں ملتان سے پنجند تک انتہائی اونچے درجے کا سیلاب برقرار ہے۔
لاہور کے علاقے چوہنگ اور موہلنوال پر سیلاب متاثرین کے لیے خیمہ بستیاں اور کیمپ لگائے گئے ہیں، جن میں 2000 سے زیادہ لوگ مقیم ہیں، لیکن انہیں اپنے گھروں کی فکر ستا رہی ہے کیونکہ دریائے راوی میں اب بھی ایک لاکھ کیوسک سے زیادہ پانی کی سطح برقرار ہے۔
زیر آب آبادیوں سے پانی نو دن بعد بھی کم نہیں ہو سکا جس کی وجہ سے حکومت کی جانب سے بحالی کا کام شروع نہیں ہو پایا۔
انہی کیمپوں میں مقیم مجیدہ بی بی نے بتایا کہ ’پیر کو سیلاب آیا اور ہم بے گھر ہو گئے۔ نہ کھانا مل رہا ہے اور نہ ہی کوئی کیمپ ہے۔
’جہاں جاتے ہیں ہمیں کہا جاتا ہے چلو یہاں سے ہم کہاں جائیں۔ میرے تین بچے ہیں۔ میں بیوہ عورت ہوں۔ ایک بیٹے کا آپریشن ہوا ہے، ایک ذہنی مریض ہے۔ دوائی کے پیسے ہیں اور نہ کوئی امداد مل رہی ہے۔‘
ایک اور پناہ گزین خاتون حاجرہ بیگم کا کہنا تھا کہ وہ بیوہ عورت ہیں اور بے گھر ہوگئی ہیں۔
انہوں نے شکایت کی کہ کیمپ میں انہیں کھانا ملتا ہے نہ سونے کی مناسب جگہ میسر ہے۔
’ہم غریب کمزور لوگ ہیں، چار بچے ہیں۔ کوئی بچہ کہیں ہے، کوئی کہیں۔ ہمارا کوئی ٹھکانا نہیں۔
’چارپائی تک دستیاب نہیں۔ کھانے کے لیے منت ترلے کر رہے ہیں۔ ہماری کوئی سننے والا نہیں۔‘
غیر قانونی سوسائٹیز
روڈا نے جمعرات کو جاری فہرست میں دریائے راوی کے اطراف 44 ہاؤسنگ کالونیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔
حکام کی جاری کردہ تفصیلات میں بتایا گیا کہ تھیم پارک سوسائٹی کو 12 ہزار کنال پر غیر قانونی طریقے سے تعمیر کیا گیا اور یہاں 30 ہزار سے زیادہ گھر بن چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روڈا نے ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے میں مدد کرنے والے متعلقہ افسران کے خلاف کارروائی کے لیے بھی سفارش کی ہے۔
ترجمان روڈا شیر افضل کے بقول ’روڈا نے دریا کے علاقے میں کسی ہاؤسنگ سوسائٹی کو منظوری نہیں دی کیونکہ ہم دریائے راوی کے اطراف پختہ بند اور عمارتیں تعمیر کر رہے ہیں، جہاں سے پانچ لاکھ کیوسک پانی گزرنے کی گنجائش ہو گی۔
لہٰذا دریا کو ایک کلو میٹر چوڑائی میں کلیئر کرنا منصوبے کا حصہ ہے۔ پہلے بھی غیرقانونی سوسائٹیز کے خلاف کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔
’اب بھی مکمل طور پر دریا اور روڈا کے علاقے کو کلئیر کرایا جائےگا۔ ہماری جہاں، جہاں تعمیرات ہو رہی ہیں وہ علاقہ کلیئر کروا رہے ہیں۔‘
فہرست کے مطابق بغیر منظوری کے بننے والی رہائشی کالونیوں میں الغنی ہاؤسنگ کالونی فیز تھری مناواں، الرحیم گارڈن فیز 4، میٹرو سٹی عربین ولاز مناواں جی ٹی روڈ، گلشن مریم بلاک، برانچ نمبر ایک کرول گھاٹی نزد الصادق گارڈن خان سینٹر شامل ہیں۔ اس کے علاوہ حسین بلاک، حسین ڈویلپرز میں 82 فٹ روڈ فیروز والا شیخوپورہ الجنت ایل ایس ڈی، فیصل بشیر کوٹ پنڈی داس فیروز والا شیخوپورہ، گلشن چوہنگ ملک رشید لینڈ سب ڈویژن ہاوسنگ سیکم، برکت کالونی چوہنگ، برکت کالونی ہاوسنگ سکیم چوہنگ ملتان روڈ شامل ہیں۔
فہرست میں النور ہاؤسنگ ڈویلپرز موہلن وال ملتان روڈ،مدینہ کالونی ٹاون موہلن وال، الشمس بلاک نزد رچنا ٹاون شیخوپورہ، الوہاب ہاوسنگ سوسائٹی موہلن وال ملتان روڈ، منظور گارڈن ایکسٹینشن چوہنگ، پیرا ڈیز گارڈن فیز تھری تاج گڑھ روڑ، نگہبان ہومز تاج گڑھ روڈ،بسم اللہ ہاوسنگ گارڈن جڑانوالہ روڈ، منظور گارڈن قطار بند روڈ شاہ پور اورگلشن حیدر فیز ٹو موضع بھلے بھانوال پٹھان کالونی بھی غیر قانونی قرار دی گئی ہے۔
غیر قانونی قرار دی گئی دوسری سوسائٹیوں میں عظیم گارڈن ہاؤسنگ سکیم فیروز والا، متین سٹیٹ گارڈن ہاوسنگ سکیم موضع ونڈالہ شاہ فیروز والا، بسم اللہ ہاؤسنگ سکیم موہلن والا پنڈ، المنظور گارڈن تاج گڑھ روڈ، ڈریمز ہومز مومن پورہ روڈ، حسنین سٹی ہاوسنگ سکیم شرق پور، عثمانیہ پارک انڈسٹریل روڈ، کنگز لینز ہاؤسنگ سکیم گنجے ساندواں بھانی روڈ اور المصطفیٰ گارڈن فیز تھری فیروز والا کو شامل ہیں۔
ان سوسائٹیز کے مکینوں کو سیلاب میں گھر ڈوبنے کے بعد اب یہ پریشانی لاحق ہے کہ اگر سوسائٹیز کے خلاف کارروائی ہوئی تو ان کے گھروں کا کیا بنے گا؟
تاہم محکمہ انسداد بدعنوانی حکام نے یہ اعلان کیا ہے کہ جن ہاؤسنگ سوسائٹیز کے خلاف کارروائی ہو گی ان میں پلاٹ خریدنے یا گھر بنانے والوں کو مالکان سوسائٹیز سے ریکوری کر کے رقوم واپس کی جائیں گی۔
متاثرین نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جب دریائے روای میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز تعمیر ہو رہی تھیں تو اعلیٰ حکام اور متعلقہ محکموں نے کارروائی کیوں نہیں کی؟
جب گھر تعمیر ہو گئے اور سیلاب نے ان آبادیوں کو متاثر کیا تب ہی کارروائی کا خیال کیوں آیا ہے؟
ترجمان پنجاب حکومت عظمی بخاری نے بدھ کو صحافیوں سے گفتگو میں بتایا کہ ’حکومت نے چونگ سرکاری سکول میں متاثرین کے لیے کیمپ لگایا ہے لیکن خیمہ بستیوں کا انتطام مختلف تنظیموں نے خود کیا ہوا ہے۔ ان خیموں میں وہ اپنے فنڈز سے انتظام چلا رہے ہیں۔‘