پانی کی روانی میں موج موج کہانی ہے۔ دریاؤں، ندی نالوں میں بہتے ریلے کئی تصویریں بہا رہے ہیں، کئی صورتیں اُبھر رہی ہیں۔ پانی اُترے گا تو بتائے گا کہ بچا کیا اور بہا کیا ہے۔ اندیشے اور خوف ہم جیسی کمزور معیشتوں کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہیں، بدقسمتی سے خوف کا منافع اور وسوسے کی نجکاری دونوں عروج پر ہیں۔
مہنگائی کا ایک طوفان سر پر کھڑا ہے جو پانی اُترے گا تو نظر آئے گا۔ گذشتہ برس چار ارب ڈالر کا چاول برآمد ہوا مگر اس بار نارووال سے چنیوٹ اور جھنگ تک کے علاقے کی ’چاول کی باسکٹ‘ پانی کی نذر ہو چکی ہے۔ دیگر فصلوں کے نقصانات کا ابھی بعد میں پتا چلے گا۔
برآمدات تو ایک طرف اس بار اگر ملکی ضرورت کے لیے چاول دستیاب ہوا تو بڑی غنیمت ہو گی۔ گندم کی فصل کا زخم اُٹھانے والے کسان کی کمر سیلاب نے پہلے ہی توڑ کر رکھ دی ہے۔ ریاست کے چیلنجز بڑھ رہے ہیں تاہم حکومت بظاہر مستحکم دکھائی دیتی ہے۔
حکومت اور مقتدرہ ایک صفحے پر ہیں اور بظاہر حکومت کو کوئی چیلنج کرتا بھی دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسے میں عدلیہ کی جانب سے گرمیوں کی تعطیلات کے بعد کچھ ’ہِل جُل‘ کسی’امکان‘ کو جنم دے رہی ہے۔ یوں بھی طویل عرصے کے بعد ’خطوط‘ کی گونج نے ارتعاش تو پیدا کیا ہے جو ’نومبر‘ تک کسی طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے یا نہیں یہ دیکھنا اہم ہو گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بظاہر عدالتی محاذ پر بھی کسی قسم کا خطرہ دکھائی نہیں دے رہا تاہم ’ہونی‘ کو کوئی ٹال سکتا ہے؟
نئے عدالتی سال کے آغاز پر جسٹس منصور علی شاہ کا خط یوں تو سات صفحات پر مشتمل ہے تاہم اُس کا پانچواں نکتہ ہی محور ہے جس کا ماخذ ’26ویں ترمیم پر فُل کورٹ‘ اجلاس کا نہ بُلایا جانا ہے۔ کیا یہ کسی تحریک کا نقطہ آغاز ہو سکتا ہے اس بارے اپوزیشن جماعتوں کا مرکز نگاہ وکلاء تنظیمیں ہیں۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ادھر رانا ثنا اللہ نے ’نظام کے تسلسل‘ کی خبر سُنائی تو اُدھر اسلام آباد ہائی کورٹ سے دہائی آئی، ادھر حکومت نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کا قانون بتایا تو اُدھر سپریم کورٹ سے ایک اور خط آیا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے موجودہ ہائبرڈ رجیم کو غیر آئینی قرار دیا تو 26ویں ترمیم ایک بار پھر شد و مد سے زیر بحث آئی اور عدلیہ میں اختلافات نے خبروں میں پھر جگہ بنائی مگر سوال پھر وہی کہ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا۔
’نظام کے تسلسل‘ نے جہاں عدلیہ کی خاموشی توڑی وہیں اپوزیشن کو بھی ایک صفحے پر لانے کی کوشش کی ہے۔
تحریک تحفظ آئین کسی طور تحریک انصاف کو سیاسی دھارے میں لانے کی کوشش کر رہی ہے نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی کے جلسے پر حملے کے بعد (جس کی ذمہ داری داعش قبول کر رہی ہے) کوئٹہ ہڑتال میں پی ٹی آئی نے شرکت کا اعلان کیا ہے اور ستمبر میں عمران خان کی ہدایت پر پہلے پشاور اور پھر حیدرآباد میں جلسوں کا ارادہ بھی سامنے آیا ہے۔
اپوزیشن اور ’حالیہ عدالتی تحریک‘ اکتوبر میں سپریم کورٹ بار کے انتخابات پر نظریں جمائے بیٹھی ہے جس کا ایجنڈا صرف ’26ویں ترمیم‘کا خاتمہ ہے۔ اگر بار انتخابات 26ویں ترمیم کے خاتمے کے حق میں نتیجہ خیز ثابت ہوئے تو اپوزیشن کسی ’تحریک‘ کی جانب بڑھ سکتی ہے جس کا آغاز ’معزز جج صاحبان‘ نے کر دیا ہے۔
اگرچہ چند جج صاحبان 26ویں ترمیم کو ’فُل کورٹ‘ اجلاس کے ذریعے ختم کروانے کی کوشش میں ہیں تاہم وکلاء تنظیمیں اسی نُکتے پر تقسیم کہ 26ویں ترمیم پارلیمان کا اختیار ہے۔ اس صورت حال میں تحریک انصاف کا کردار اہم بھی ہو گا اور دلچسپ بھی۔۔ کیونکہ عمران خان عوامی تحریک کی بجائے ’عدالتی تحریک‘ سے فائدہ اٹھانے والے بن سکتے ہیں۔
کیا اپوزیشن جماعتیں نومبر کی جادوئی تاریخ کو بھی ’مطمع نگاہ‘ بنا رہی ہیں جس پر حکومتی اہم شخصیات باقاعدہ لائحہ عمل بنا چکی ہیں۔ بہر حال تاحال ’حکومتی بندوبست‘ پی ٹی آئی اور مقتدرہ کی مخاصمت پر کھڑا ہے، عوامی مزاحمت میں ناکامی کے بعد اب ’سسٹم‘ کے اندر سے نئی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے؟
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔