برسلز کی فضاؤں میں جنید حفیظ کا ذکر

برسلز میں توہین مذہب کے حوالے سے پاکستان میں حال ہی میں بلاسفیمی گینگ کا انکشاف اور اعلیٰ عدالت کا فیصلہ جبکہ اسی دوران محمد علی مرزا کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ بھی زیر بحث رہا۔

یورپی پارلیمان کے ایوان کا ایک منظر (انڈپینڈنٹ اردو / سکرین گریب)

دنیا کہاں بدلی ہے البتہ  تقاضے ضرور بدل گئے ہیں۔ جدید جنگوں اور تنازعات کے اس دور نے پوری دنیا کو ایک سا کر دیا ہے۔ ہم تیسری دنیا والوں کی تو ہمیشہ ہی  ترجیح استحکام کی کوشش اور عدم تحفظ کا احساس رہا۔ اسی لیے فلاحی ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا مگر پہلی دنیا بھی ہم جیسا سوچے گی اس کا اندازہ برسلز جا کر ہوا۔

برسلز کی یخ بستہ اور پرسکون فضاؤں میں ایک ہی جملہ کانوں سے ٹکراتا رہا اور وہ تھا یوکرین پر روسی حملے کے بعد یورپ کی سلامتی کو لاحق خطرات سے کیسے نمٹا جائے۔ یوکرین پر روسی جنگ نے یورپی یونین کے سوچنے کے انداز کو قطعی طور پر مختلف یا یوں سمجھئے ’عدم تحفظ‘ کی جانب دھکیل دیا ہے ۔

کس قدر مشکل تھا اس نظریے کو قبول کرنا کہ روس کے یوکرین پر حملے اور امریکہ کی ’لاپرواہی‘ نے یورپ کو چند تلخ حقائق سے روشناس کروا دیا اور اس میں سب سے اول سلامتی کے لیے کسی دوسرے پر انحصار نہ کرنا ہے۔ نیٹو کا وجود اپنی جگہ مگر یوکرین روس جنگ میں یورپ معاشی نقصان اور امریکہ پر ترویزاتی انحصار کے باعث واشنگٹن کے رحم وکرم پر دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں موجودگی کے دوران سلامتی کے لیے یورپی ممالک کی حفاظت کے لیے ’ڈرون وال‘ جیسے موضوعات زیر بحث رہے۔

میڈیا اس پر کھل کر بات کر رہا ہے جبکہ ہم یہ سوچتے رہے کہ یورپ کو نہ تو افغانستان جیسا  پڑوسی ملا نہ ہی انڈیا جیسا ہمسایہ۔ گویا ہم کچھ تو اپنی ’عدم تحفظ‘ کے احساس کچھ ’سٹریٹیجک ڈیپتھ‘ کے باعث اپنی دفاعی پالیسیاں تشکیل دیتے رہے مگر جو یورپ کے ساتھ یوکرین کی جنگ کے دوران ہوا وہ ہمارے ساتھ افغان روس جنگ کے بعد ہو چکا ہے۔ بہر حال ذہن مسلسل ‘سکیورٹی مجبوریوں‘ کے درمیان پھنسا رہا۔ 

دلچسپ تو یہ بھی تھا کہ اب یورپ کی ہر پالیسی ’سلامتی‘ کے گرد ہی گھومتی ہے۔ یورپ مکمل طور پر ’سکیورٹی ریاست‘ نہیں بنا، لیکن اس کی سمت ضرور بڑھ رہا ہے۔ خاص طور پر سرحدوں پر ڈیجیٹل نگرانی اور انسدادِ دہشت گردی قوانین کے دائرہ کار کو بڑھانے سے متعلق اقدامات اس تاثر کو مضبوط کر رہے ہیں۔

 

بہر حال یہ تبدیلی جمہوریت، نجی آزادی اور انسانی حقوق کے درمیان ایک نیا توازن پیدا کرنے سے متعلق بحث کو جنم دے چکی ہیں۔ 

ہمارے ہاں افغان شہریوں کو واپس بجھوانے کی بحث ہے تو وہاں ’قانونی اور غیر قانونی پناہ گزین‘ کے لیے سخت پالیسیوں کا اجرا اس معاملے پر مہاجرین کے وزیر میگنیس برونر نے اعتراف کیا کہ یورپی یونین پناہ گزین سے متعلق مزید سخت پالیسی بنانے کے لیے اجلاس کرنے جا رہی ہے جس کا مقصد غیر قانونی پناہ گزینوں کو روکنا ہے۔ دس سال قبل ’پناہ‘ سے متعلق قوانین اب بدلے جا رہے ہیں جبکہ یورپ میں کون رہے گا اور کس کو نہیں رہنا اس بارے فیصلہ یورپی یونین رواں سال کے اختتام پر کرے گی۔

پاکستان سے غیر قانونی طور پر یورپ منتقل ہونے والوں اور کشتیوں میں سمندر کا شکار ہو جانے والوں کے سلسلے کو روکنے  کے لیے بھی تیسری دنیا کی حکومتوں کو اہم اقدامات پر زور دیا جا رہا ہے۔ انہی ملاقاتوں میں یہ بھی معلوم ہوا کہ حیران کن طور پر گذشتہ تین سالوں میں پاکستان سے قانونی طور پر یورپ منتقل ہونے والوں کی تعداد میں 40 فی صد کمی آئی ہے، جس کا کریڈٹ پاکستان کی حکومت کو دیا گیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان اور یورپی یونین کے درمیان جی ایس پی پلس کا سٹیس وہ لیوریج ہے جس کے تحت پاکستان کو خصوصی تجارتی رعائت دی گئی ہے جو کہ پاکستان کی برآمدات کو یورپی منڈیوں تک مفت رسائی فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی یورپ کو برآمدات کا حجم اس وقت 60 فیصد ہے اور یہ وہ سہولت ہے جو پاکستان سے کئی ایک شرائط تسلیم کروانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

یورپی یونین اس سلسلے میں چھٹا کنونشن جلد متعارف کرانے کی کوششوں میں ہے جس کے لیے نومبر میں یورپی یونین وفود کی پاکستان آمد متوقع ہے۔

اس دوران مختلف ملاقاتوں میں  توہین مذہب، اقلیتوں کے تحفظ، میڈیا کی آزادی اور سزائے موت کے خاتمے کے حوالے سے اہم ’خدشات‘ بھی سننے کو ملے۔ پاکستان میں سزائے موت پر عدم عملدرآمد یورپی یونین کے لیے کسی حد تک اطمینان کا باعث ہے تاہم توہین مذہب کے واقعات پر تشویش اپنی جگہ موجود ہے۔

دنیا کا ہر ملک اپنے سماج کے تحفظ اور نشوو نما کے لیے قوانین بناتا اور ان پر عملدرآمد کرتا ہے۔ ہماری معاشی مجبوریاں ہمارے پیروں کی بیڑیاں ضرور ہیں تاہم ہمیں اپنے ملک کو مضبوط بنانے کے لیے اہم اقدامات کرنا ہوں گے۔ انہی ملاقاتوں میں جنید حفیظ کی لمبی قید اور ناانصافی کا تذکرہ بھی سننے کو ملا اور حال ہی میں توہین مذہب کے حوالے سے بلاسفیمی گینگ کا انکشاف اور اعلیٰ عدالت کا فیصلہ جبکہ اسی دوران محمد علی مرزا کے خلاف توہین مذہب کا مقدمہ بھی زیر بحث رہا۔

پاکستان میں حالیہ دنوں میں تحریک لبیک کے خلاف اقدامات اور اس مذہبی جماعت پر پابندی کا فیصلہ کیا جا رہا ہے۔ تاہم سوال وہی ہے کہ یہ سب گروہ کیوں بنائے گئے؟ تحریک طالبان پاکستان ہو یا تحریک لبیک یہ ساری ’تحاریک‘ غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہیں اور آج ریاست کو یرغمال بنا رہی ہیں۔ اب اگر فیصلہ ہو چکا ہے کہ ایسی تحریکوں کا قلع قمع کیا جائے گا اور ریاست کسی مصلحت سے کام نہیں لے گی تو خدارا اب کوئی ’مصلحت‘ مسلط نہ کی جائے۔

یہ سوال بار بار پوچھے جاتے رہے کہ کیا جنید حفیظ کو رہائی مل سکتی ہے، بلاسفیمی گینگ کے ہاتھوں شکار ہونے والے معصوم نوجوانوں کو انصاف مل سکے گا  اور مذہب کو ہتھیار بنانے والوں کو  نشان عبرت بنایا جا سکے گا؟ جواب میں فقط دعا ہی ہے کہ ایسا ہو۔ آخر ہمیں روشن مستقبل کی تمنَا کرنے سے کون روک سکتا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر