شی جن پنگ کو برطانیہ کی پروا نہیں؟

’چائنا جاسوسی کیس‘ کے بعد کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام سیاست دانوں کی طرح اس غصے میں شریک نہیں جو ایک ملک کو ’مستقل دشمن‘ کا درجہ دیتے ہیں۔ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں۔

16 اکتوبر 2025 کو بنائی گئی تصاویر کا یہ مجموعہ کرسٹوفر کیش (بائیں) اور کرسٹوفر بیری کو 26 اپریل 2024 کو لندن کی ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کی عدالت میں پہنچتے ہوئے دکھا رہا ہے۔ برطانیہ کی داخلی انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی 5 کے سربراہ نے 16 اکتوبر 2025 کو خبردار کیا تھا کہ چین اب برطانیہ کے لیے ’روزانہ‘ خطرہ ہے۔ (اے ایف پی)

اگر کوئی برطانیہ کی چین پالیسی کی الجھن کا ثبوت تلاش کر رہا ہو تو دو افراد کے خلاف بڑی دھوم دھام سے عائد کیے گئے جاسوسی کی الزامات سے زیادہ جامع مثال تلاش کرنا مشکل ہو گا جو مقدمے کے آغاز سے کچھ پہلے ہی کرس نامی دو افراد کے خلاف واپس لے لیے گئے۔ 

کرسٹوفر کیش، جو گرفتاری کے وقت پارلیمانی محقق تھے اور کرسٹوفر بیری، جو چین میں استاد کے فرائض انجام دے چکے تھے، دونوں نے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کو مسترد کر دیا اور اب اپنی آزاد زندگی گزار رہے ہیں، اگرچہ ان کی بدنامی ختم نہیں ہوئی۔ 

اس کے باوجود، عظیم برطانوی عوام اس شور و غل کو معمولی سی بات سمجھ کر برداشت کر رہا ہے، شاید اس لیے کہ وہ اسے زیادہ تر چین کے ساتھ تعلقات کے بارے میں ایک داخلی تنازعے کے طور پر دیکھتے ہیں جو ان کے روزمرہ کے مسائل سے دور ہے۔ حکومت اور سیاست دان اس جاسوسی کہانی میں دلچسپی برقرار رکھے ہوئے ہیں، حالانکہ تین ہفتوں کی پارلیمانی چھٹی ہو چکی ہے۔ یہ فرق کیوں ہے؟ 

اگرچہ یہ معاملہ دو کم یا درمیانے عمر کے برطانوی شہریوں کے چین کے لیے جاسوسی کرنے کے الزامات کے خوفناک سکینڈل کے طور پر پیش کیا گیا، لیکن یہ کبھی بھی کِم فلبی یا گائے برگیس (برطانوی انٹیلی جنس کے اندر دو سویت جاسوسوں) کی طرح کا واقع نہیں تھا جنہوں نے برطانیہ کے اہم مفادات کو نقصان پہنچایا۔ چین برطانیہ کی سیاسی شعور پر بڑا حاوی ہے، لیکن شی جن پنگ اور ان کا چین برطانیہ جیسے درمیانے درجے کی طاقت کے بجائے بڑے مسائل پر توجہ دیتے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ چین کو برطانیہ میں تجارتی معاہدوں اور جاسوسی میں دلچسپی ہے، لیکن اس دلچسپی کا دائرہ اس کے تناسب میں دیکھا جانا چاہیے۔ امریکہ، بھارت اور یورپی یونین کو بھی دیکھیے۔ 

کیش اور بیری کے خلاف واپس لیے گئے الزامات کے بارے میں کچھ وضاحت اس ہفتے نائب قومی سلامتی مشیر، میتھیو کولنز کے جاری کردہ میموز سے ملی ہے۔ پھر بھی، آج کل کے دور میں جہاں وسیع پیمانے پر اوپن سورس مواد موجود ہے، جاسوسی کی تعریف کچھ دھندلی ہے۔ یہ پارلیمانی محققین کا علما، صحافی اور سفارت کاروں کی طرح کام ہے کہ وہ عوامی معلومات سے نتائج اخذ کریں۔ 

کب یہ حد پار کرکے جاسوسی یا دشمن ملک کی مدد بن جاتی ہے؟ ایک سطح پر، جواب واضح ہے: اگر معلومات ’سب سے اعلیٰ خفیہ‘ لیبل کے ساتھ ہوں یا جان بوجھ کر کسی ایسے کو شخص دی جائیں جو ان کو برطانیہ کے خلاف استعمال کرے۔ لیکن اگر کوئی چینی - اور صرف چینی ہی نہیں - اہلکار جانتا ہو کہ کہاں دیکھنا ہے اور برطانیہ کے اداروں کی کارکردگی کے معاملات کو کس طرح سمجھنا ہے؟ اس صورت میں کوئی قانونی حد پار نہیں ہوتی۔ اگر محقق یا سفارت کار کسی غیر ملکی ساتھی کو ایسے معلومات کا سراغ دے تو کیا؟ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جتنا تیزی سے فریقین نے الزام تراشی سے جان چھڑانے کی کوشش کی، کراؤن کورٹ کی استغاثہ کی سروسز سے لے کر انٹلی جنس ایجنسیاں جو عام طور پر خاموش رہتی ہیں، یہ ایک حیرت انگیز منظر تھا۔ آخرکار لگتا ہے کہ میتھیو کولنز ہی کو اس معاملے کی ذمہ داری دی گئی۔ ایک غیر معمولی اور متنازعہ اقدام میں ان کے میموز جاری کیے گئے، حالانکہ اس بات پر سوال کھلا چھوڑ دیا گیا کہ آیا چین کو دشمن سمجھا جائے یا نہیں۔

کریسٹوفر کیش کا پارلیمانی محقق کا کردار سیاسی جذبات کو مزید بھڑکانے والا ثابت ہوا، جس پر سپیکر، سر لنڈسے ہوائل نے پارلیمنٹ کی سلامتی پر چین جیسے طاقتوں کے خطرات کی تفصیل سے متنبہ کیا۔ اس کے بعد سابق برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے معاون ڈومینک کمینگز نے ایک ’غیرمددگار‘ مداخلت کی، جنہوں نے الزام لگایا کہ چین نے کئی بار حکومت کی سکیورٹی توڑی ہے۔ 

پھر بھی، ایسا لگتا ہے کہ عوام سیاست دانوں کے غصے میں مکمل شریک نہیں ہو رہی، جو حیران کن بھی نہیں، کیونکہ برطانیہ کی چین پالیسی بہت الجھی ہوئی ہے۔ تقریباً دس سال پہلے اسی مہینے، تب کے وزیر خزانہ جارج آزبورن نے برطانیہ اور چین کے تعلقات میں ’سنہری دہائی‘ کی تخلیق کا مطالبہ کیا تھا، مگر اس خواہش پر تھریسا مے نے اچانک لگام ڈال دی۔ وہ ہوم آفس سے ڈاوننگ سٹریٹ پہنچی بھی نہیں تھیں کہ انہوں نے برطانیہ کے اہم مفادات میں چینی مال اور مہارت کے شامل ہونے پر تحفظات کا اظہار کیا، چاہے وہ نیوکلیئر پاور (ہنکلی پوائنٹ اور سائزویل سی) ہو، ٹیلی کام (بی ٹی اور ہواوے) ہو، یا یو کے یونیورسٹیوں میں تحقیقی تعاون۔ 

ایک ایسا تعاون اور انحصار بڑھا دیا گیا جو روس یا دیگر کئی ملکوں کو کبھی منظور نہ کیا جاتا، مگر چین کی جسامت اور ممکنہ دولت کی وجہ سے اسے برطانیہ کے مفاد میں سمجھا گیا۔ اور اگر جاسوسی کے مقدمے کی پیچیدگیاں ختم ہو گئیں، تو ایک اور جھگڑا اب سامنے آ رہا ہے: لندن کے ٹاور کے سامنے پرانے رائل منٹ کی جگہ چین کے نئے میگا ایمبیسی بنانے کے منصوبے پر، جو لازمی طور پر برطانیہ کے بیجنگ میں نئے سفارت خانے کے منصوبے سے جڑے گا۔ 

سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ ممکنہ تنازع ظاہر کرتا ہے کہ کس قدر بے وقوفی ہوتی ہے جب کسی ملک کو فطری دشمن قرار دیا جائے۔ لارڈ پالمرسٹن کے قول کے مطابق، جسے ہنری کسینجر نے بھی دہرایا، ممالک کے نہ کوئی دائمی دوست ہوتے ہیں اور نہ دائمی دشمن، صرف دائمی مفادات ہوتے ہیں جن کا انہیں پیچھا کرنا ہوتا ہے۔ حالیہ ہفتوں میں اسے چند بار دہرایا جاتا، تو یہ سب، بشمول وزیراعظم، بڑی پریشانی سے بچ جاتے۔ 

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر