محمد رحیم خان کی ایک بیٹی ضلع لوئر دیر کے گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج میں بی ایس انگلش کے تیسرے سمسٹر کی طالبہ ہیں جبکہ دوسری بیٹی انٹرمیڈیٹ میں ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے کے مختلف اضلاع میں سرکاری کالجز میں بعض بی ایس (چار سالہ) ڈگریاں ختم کرنے اور ان کی جگہ کچھ کالجوں میں ایسوسی ایٹ ڈگری پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق دور دراز اضلاع کے کالجز میں بی ایس ڈگری پروگرام خواتین کے لیے امید کی کرن تھا، لیکن اب اس فیصلے سے ممکنہ طور پر لڑکیوں کی تعلیم متاثر ہو گی۔
حکومت کے اس فیصلے سے رحیم خان پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے ’بیٹیوں کو تعلیم دلانا میرا خواب ہے لیکن اس فیصلے سے ان کی تعلیم متاثر ہو گی۔‘
انہوں نے بتایا کہ قریبی کالج میں بیٹی کا داخلہ لینا آسان تھا، کیوں کہ فیس زیادہ نہیں تھی اور ہاسٹل میں رہنے کا مسئلہ بھی نہیں تھا۔
’اپنے علاقے میں کالج ہونا اور وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا بہترین اقدام تھا کیوں کہ اخراجات بھی کم تھے، لیکن اب دوسری بیٹی کی تعلیم مشکل بنا دی گئی ہے۔‘
خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں سرکاری کالجوں نے متعلقہ ڈویژن کی یونیورسٹیوں کے ساتھ شراکت داری میں بی ایس ڈگری پروگرام شروع کر رکھا تھا جس میں لڑکے اور لڑکیاں دونوں تعلیم حاصل کرتے تھے۔
اس پروگرام کے تحت فزکس، کیمسٹری، بیالوجی، انگلش اور معاشیات وغیرہ جیسے مضامین میں پڑھائے جاتے تھے۔
یونیورسٹیوں کے مقابلے میں ان کالجوں میں فیس بہت کم تھی، جسے متوسط اور کم آمدنی والے گھرانے بھی برداشت کر سکتے تھے۔
اس وقت سرکاری یونیورسٹیوں میں فی سمسٹر فیس 30 ہزار سے 60 ہزار روپے ہے، جب کہ کالجوں میں صرف چھ سے آٹھ ہزار روپے فی سمسٹر ہے۔
بی ایس پروگرام 2011 میں شروع ہوا تھا جب ملک میں چار سالہ ڈگری کو بین الاقوامی معیار کے مطابق اپنایا گیا اور پرانی دو سالہ بی اے، بی ایس سی اور ماسٹر کی ڈگریاں ختم کر دی گئی تھیں۔
پی ٹی آئی حکومت نے اس پروگرام کا دائرہ 2017 میں 93 کالجوں تک بڑھا دیا تھا اور 2023 تک صوبے کے تمام سرکاری کالجوں میں اس پروگرام کو شروع کر دیا گیا۔
خیبر پختونخوا کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم مینا خان آفریدی کے مطابق صوبے کے مختلف کالجوں میں ایک ہزار سے زائد بی ایس پروگرام چل رہے ہیں۔
’ان میں سے کچھ کی کارکردگی اچھی ہے، لیکن کئی میں پانچویں سمسٹر کے بعد انرولمنٹ کم ہو جاتی ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ کہتے ہیں ’اسی وجہ سے تقریباً 250 بی ایس پروگرامز کو دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
’ایسوسی ایٹ ڈگری کے بعد طلبہ کسی بھی یونیورسٹی میں داخلہ لے کر چار سالہ بی ایس مکمل کر سکیں گے۔‘
تاہم طلبہ، خاص طور پر لڑکیوں کے مطابق، ان کے لیے ایسوسی ایٹ ڈگری کے بعد بی ایس مکمل کرنا مشکل ہے۔
انعم بیگم نے، جن کا تعلق بونیر سے ہے، تین سال پہلے نفسیات میں ایسوسی ایٹ ڈگری حاصل کی تھی لیکن ان کے علاقے میں کوئی یونیورسٹی نہیں جہاں وہ پانچویں سمسٹر سے بی ایس مکمل کر سکیں۔
انہوں نے بتایا ’پشاور یا ملاکنڈ یونیورسٹی جانا اور وہاں ہاسٹل میں رہنا پڑے گا، لیکن اخراجات برداشت سے باہر ہیں اور سماجی مسائل کی وجہ سے ہر لڑکی ہاسٹل میں نہیں رہ سکتی۔‘
پشاور میں تعلیمی فاؤنڈیشن ’پوہا‘ کے سربراہ شفیق گگیانی کہتے ہیں کہ سرکاری کالجوں میں بی ایس پروگرام خاص طور پر خواتین کے لیے ایک اہم قدم تھا۔
ان کے مطابق اس سے خواتین کو کم فیس میں اپنے علاقے میں بین الاقوامی معیار کی ڈگری مل جاتی تھی اور تعلیم کی ایک بڑی رکاوٹ دور ہو گئی تھی لیکن اب صورت حال مختلف ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اب خواتین کے لیے شہر میں یونیورسٹی جانا آسان نہیں رہا۔ ایک تو فیس بہت زیادہ ہے اور دوسری طرف کئی علاقوں میں خواتین کو ہاسٹل میں رہنے کی اجازت ہی نہیں ملتی۔‘
شفیق نے مزید کہا کہ ایسوسی ایٹ ڈگری کے آغاز کے ساتھ ایک اور سوال بھی پیدا ہوگا کہ کیا یہ ڈگری بین الاقوامی سطح پر تسلیم کی جائے گی، کیوں کہ دنیا بھر میں اب بی ایس اور ماسٹر کی ڈگریاں رائج ہیں۔