جون کے مہینے سے شروع ہونے والا پری مون سون اور مون سون، اپنے پیچھے تباہی، انسانی اموات، مالی و سماجی نقصان کی داستانیں چھوڑ کے رخصت ہوا۔
کچھ دنوں میں خزاں آجائے گی ممکن ہے اس کے ساتھ سموگ بھی آئے، پھر ممکن ہے مہاوٹیں برس جائیں اور اچانک گرمی آجائے۔ گرمی گزرتے گزرتے پھر سے مون سون۔
یہ ہوا آنے والا برس ، جس کا ایک ہلکا سا خاکہ مجھ جیسا معمولی ذہانت رکھنے والا شخص بھی کھینچ سکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اس جن کے بارے میں چلاتے چلاتے ہمارے گلے پڑ گئے ہیں۔
کچھ وزارتیں بنتی ہیں جہاں بیٹھے لوگ مجھے تو نہ پچھلی حکومت میں نظر آئے اور نہ اس بار ابھی تک کچھ خاص معلوم ہوا کہ یہ اہم ترین معاملہ کس کے سپرد ہے۔
صرف مون سون ہی نہیں، سموگ بھی ایک تبدیلی ہے جس کے باعث سورج کی روشنی زمین پہ نہیں پہنچ سکتی۔ یہ صورت حال بیج کی جرمینیشن کو متاثر کرتی ہے۔ اسی طرح بہار کے موسم کا دورانیہ کم ہونے سے پھلوں کو بور نہیں لگتا یا جل جاتا ہے۔
مون سون کا حال تو ابھی سب دیکھ ہی چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی زراعت کے شعبے پہ نئے ٹیکس مسلسل بڑھائے جا رہے ہیں۔ زرعی زمین پہ ٹیکس، زرعی آمدن پہ ٹیکس، تمام تر آمدن پہ ٹیکس، مہنگے بیج، کھاد، جراثیم کش ادویات، بجلی کے بل، ڈیزل کی قیمتیں اور موسمیاتی تبدیلی، یہ سب مل کر زراعت کے شعبے کی کمر توڑ چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کاشتکار ، اس تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ملک میں موجود، آج کل اور پرسوں کی بھی قیادت کو نہ اس مسئلے کی سمجھ ہے نہ وہ سمجھنا چاہتے ہیں۔چھوٹے چھوٹے اہداف ہیں، چھوٹے چھوٹے مقاصد۔ جن پہ وقت اور توانائی ضائع کی جا رہی ہے۔
اس وقت کسان کو ریلیف دینے کی ضرورت ہے۔ زرعی ایمرجنسی ایک نام نہاد قانون رہا تو پہلے کئے گئے اقدامات کی طرح سوائے فائلوں کا پیٹ بھرنے کے کچھ نہیں ہو گا۔
ایک دو ماہ کی اس مہلت میں اگر ہنگامی بنیادوں پہ پالیسیاں بنا لی گئیں تو پاکستان، آنے والے غذائی، زرعی، مالی اور سماجی تنزل سے بچ بھی سکتا ہے۔
کوئی آفت ایسی نہیں جس سے بچاو ممکن نہ ہو۔ ضرورت صرف اخلاص اور محنت کی ہے۔ عذاب بھی انسانوں ہی پہ آتے ہیں اور ان عذابوں سے بچ کے نکلنے والے بھی انسان ہی ہوتے ہیں لیکن ان عذابوں سے نیست و نابود ہونے والے بھی انسان ہی ہوتے ہیں مگر یہ وہ انسان ہوتے ہیں جو بار بار سمجھانے پہ بھی نہیں سمجھتے۔
فیصلہ اس وقت ہمارا اپنا ہے۔ ایک واضح موثر اور سریع پالیسی ہی سب کو بچا سکتی ہے۔ چونکہ اس تبدیلی سے پورا خطہ متاثر ہو رہا ہے ، اس لیے بات بھی بین الاقوامی سطح پہ ہونی چاہیے۔ خارجہ پالیسی کی بنیاد سیاسی حالات کے ساتھ موسمیاتی تبدیلی بھی ہونی چاہیے۔ وقت کم ہے مگر ابھی وقت ہے۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔