عمان کشتی حادثہ میں بنوں کے 22 افراد لاپتہ: ’آگ لگی اور سمندر میں چھلانگ لگائی‘

کشتی حادثے میں بنوں کے 22 ماہی گیر لاپتہ ہیں جن میں سے ایک کی بازیابی کے بعد گھر والوں سے رابطے کی تصدیق سامنے آئی ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے علاقے خوجڑی سے تعلق رکھنے والے حمیداللہ نے اپنے اہل خانہ کو اطلاع دی ہے کہ وہ کچھ روز قبل عمان میں حادثے کا شکار ہونے والی ماہی گیروں کی کشتی میں سوار تھے اور بال بال بچ گئے ہیں۔

خوجڑی ہی کے رہنے والے سمید اصغر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حمید اللہ نے اپنے اہل خانہ کو ایک ریکارڈ کیا ہوا صوتی پیغام بھیجا ہے، جس میں اس نے اپنے محفوظ ہونے کے علاوہ حادثے کی تفصیلات بھی بتائی ہیں۔

سمید کے مطابق حمید اللہ نے گھر والوں کو بتایا کہ وہ ایک آدھ دن میں پاکستان پہنچ جائے گا۔

اپنے پیغام میں حمید اللہ نے بتایا کہ کشتی کو حادثہ کمپریسر پھٹنے کی وجہ سے پیش آیا۔  

’آگ لگنے کے بعد ایک ایک کر کے مسافر سمندر میں چھلانگ لگا رہے تھے اور کشتی خالی ہو گئی۔‘

حمید اللہ کے مطابق، ’میں نے کئی گھنٹے سمندر میں گزارے اور بعد میں سمندر میں ایک دوسری کشتی میں موجود لوگوں نے مجھے جیکٹ پھینک کر بچایا۔‘

انڈپینڈنٹ اردو کی کوشش کے باوجود کسی آزاد ذریعے سے کشتی حادثے کی وجہ معلوم نہ ہو سکی، تاہم بچ جانے والے حمید اللہ کی ایک مبینہ آڈیو پیغام سے یہ معلومات سامنے آئی ہیں جو انہوں نے اپنے خاندان کو بھیجی ہے۔

خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں سے تعلق رکھنے والے 22 افراد جو مبینہ طور پر عمان کے سمندر میں سات ستمبر کو کشتی حادثے کے دوران لاپتہ ہو گئے تھے میں سے ایک کو زندہ بچایا گیا ہے جو کراچی پہنچ چکے ہیں۔

تاہم لواحقین کے مطابق باقی مسافر ابھی تک لاپتہ ہیں اور حکومت کی طرف سے کسی قسم کی تفصیلات ابھی شیئر نہیں کی گئی ہیں۔

ان مسافروں کا تعلق بنوں کے علاقے خوجڑی سے ہے اور علاقہ مکینوں کے مطابق یہ مسافر ماہی گیر ہیں جو وہاں مزدوری کی غرض سے جاتے ہیں۔

بنوں سے رکن صوبائی اسمبلی پختون یار خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کشتی حادثے میں لاپتہ افراد کے حوالے سے صوبائی چیف سیکرٹری نے وفاقی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے گذشتہ روز بنوں جا کر متاثرہ خاندانوں سے تعزیت اور لاپتہ افراد کے لواحقین کے لیے فی کس 10 لاکھ روپے کا اعلان بھی کیا ہے۔

حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں لاپتہ ہونے والے ایک دوسرے شخص یاسر کا بھائی، جو بنوں پہچ گئے ہیں، بتایا کہ ان کے کاندان کے آٹھ افراد لاپتہ ہیں۔

انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ لاپتہ پاکستانی ماہی گیروں کی تلاش کی جائے اور ان کی موت کی صورت میں جسد خاکی اہل خانہ کے حوالے کرنے کا بندوبست کیا جائے۔

تاہم حکومت کی طرف سے اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بیان یا ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔    

ماہی گیر کیسے جاتے ہیں؟

کشتی حادثے میں بچ جانے والے حمید اللہ کے چچازاد بھائی شیر انداز، جن کا بیٹا بھی کشتی حادثے میں لاپتہ ہے، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارے باپ دادا دہائیوں سے یہی ماہی گیری کا کام کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ میرا 22 سالہ بیٹا شیراز ایک ماہ پہلے گیا تھا لیکن ابھی کچھ نہیں پتہ کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شیر انداز نے بتایا کہ پہلے یہاں بنوں اور صوبے کے دیگر علاقوں سے ٹیمیں ایک لیڈر کی سربراہی میں کراچی سے ایران چلی جاتی ہیں اور وہاں سے گوادر میں ان کو ماہی گیری کا پاس دیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا، ’گوادر میں ماہی گیری سے وابستہ بڑی کمپنیاں ہیں اور ان کو ہائر کر کے ایک پاس جاری کیا جاتا ہے اور پھر عمان کے سمندر میں دو تین مہینے ماہی گیری کر کے گھر کا چولہا جلاتے ہیں۔‘

شیر انداز کے مطابق ان کے دو چچازاد بھائی اس کشتی میں بھی سوار تھے۔

اس کشتی حادثے کے حوالے سے پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے جبکہ انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے وزارتِ خارجہ کو مؤقف کے لیے پیغام بھیجا ہے لیکن کوئی جواب نہیں ملا ہے۔

شیر انداز نے بتایا کہ فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی کے نمائندے گاؤں آ کر ہم سے تفصیلات لے گئے ہیں لیکن وفاقی حکومت کی طرف سے ابھی تک ہم سے کسی قسم کا رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بچ جانے والے حمید اللہ کراچی پہنچ گئے ہیں اور وہاں پر اب پولیس کے پاس ہیں، اور انہی سے باقی لاپتہ افراد کے حوالے سے مزید تفصیلات حاصل کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان