انڈیا نے کابل میں مشن کو سفارت خانے کا درجہ دینے کا اعلان کر دیا

انڈین وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کا کہنا ہے کہ انڈیا افغانستان کی ترقی کے لیے پرعزم ہے اور تجارت، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں تعاون کا وعدہ کرتا ہے۔

انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی 10 اکتوبر 2025 کو انڈین دارالحکومت نئی دہلی میں مصافحہ کر رہے ہیں (پریس ٹرسٹ آف انڈیا)

انڈیا کے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے جمعے کو کابل میں ملک کے تکنیکی مشن کو مکمل سفارت خانے کا درجہ دینے کا اعلان کیا ہے۔

انہوں نے یہ اعلان اپنے افغان ہم منصب امیر خان متقی کے ساتھ ملاقات کے بعد کیا۔ یہ اعلان طالبان کے 2021 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد کیا گیا جب دونوں ملکوں کے درمیان اعلیٰ سطح کی پہلی ملاقات ہوئی۔ امریکی قیادت میں اتحادی فوج دو دہائیوں تک افغانستان میں موجود رہی۔

انڈین وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہا کہ انڈیا افغانستان کی ترقی کے لیے پرعزم ہے اور تجارت، صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں تعاون کا وعدہ کرتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نئی دہلی افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے پرعزم ہے۔

انہوں نے نئی دہلی میں ملاقات کے بعد مشترکہ پریس بریفنگ میں افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے درمیان قریبی تعاون آپ کی قومی ترقی کے ساتھ ساتھ علاقائی استحکام اور طاقت میں بھی حصہ ڈالتا ہے۔‘

 

افغان وزیر خارجہ ان افغان رہنماؤں میں شامل ہیں جن پر اقوام متحدہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور ان کے اثاثے منجمد ہیں۔ ان کے سفر کرنے پر بھی پابندی ہے تاہم وہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کمیٹی کی جانب سے سفری پابندی سے عارضی استثنیٰ ملنے کے بعد جمعرات کو نئی دہلی پہنچے۔

یہ دورہ منگل کو روس میں افغانستان پر منعقدہ ایک بین الاقوامی اجلاس میں متقی کی شرکت کے بعد کیا گیا جس میں چین، انڈیا، پاکستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان کے نمائندے شامل ہوئے۔

انڈیا کا طالبان سے حقیقت پسندانہ رابطہ

تازہ اقدام انڈیا اور طالبان کی حکومت والے افغانستان کے درمیان گہرے ہوتے تعلقات کو اجاگر کرتا ہے باوجود اِس کے کہ تاریخی طور پر وہ ایک دوسرے کے سخت مخالف رہے ہیں۔

ایسا اس وقت ہوا ہے جب طالبان انتظامیہ بین الاقوامی پہچان کی تلاش میں ہے، اور یہ انڈیا کی اس تزویراتی چال کو بھی واضح کرتا ہے کہ وہ اپنے علاقائی حریفوں، پاکستان اور چین، کو جواب دے جو اَفغانستان میں گہرائی سے ملوث ہیں۔

انڈیا کے سابق وزیر خارجہ وکرم مسری نے جنوری میں دبئی میں متقی سے ملاقات کی۔ اس کے بعد متقی اور جے شنکر کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت ہوئی۔ افغانستان کے لیے انڈیا کے خصوصی نمائندے نے اپریل میں کابل کا دورہ کیا تاکہ سیاسی اور تجارتی تعلقات پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ طالبان کے ساتھ اعلی سطح پر مذاکرات کرنے کا انڈیا کا فیصلہ اس کے ازسرنو سٹریٹیجک جائزے کی عکاسی کرتا ہے، جو کسی حد تک ماضی میں عدم شمولیت کے نتائج اور سٹریٹیجک حریفوں سے پیچھے نہ رہنے کی خواہش سے بھی تشکیل پاتا ہے۔

انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے سینئر تجزیہ کار پروین دونتھی نے کہا کہ نئی دہلی دنیا کو اپنے اس تصادم کی عینک سے دیکھتا ہے جو یا تو چین سے ہے، پاکستان سے، یا دونوں سے ہے۔ طالبان کی ایک متوازن خارجہ پالیسی کی کوششیں، جس میں حریف ممالک اور گروہوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنا شامل ہے، نئی دہلی کے اپنے طریقہ کار کی عکاسی کرتی ہیں۔‘

یہ دورہ اس وقت ہوا ہے جب افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات تناؤ کا شکار ہیں، خاص طور پر تارکین وطن کی ملک بدری اور سرحدی کشیدگی پر، اور انڈیا کی شمولیت کو پاکستان کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں سٹریٹیجک توازن کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا کا مقصد یہ بھی ہے کہ افغانستان میں بنیادی ڈھانچے اور سفارتی موجودگی کے ذریعے چین کے غلبے کو محدود کیا جا سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونتھی کا کہنا تھا کہ ’چوں کہ بیجنگ طالبان کے ساتھ سرگرمی سے مذاکرات کر رہا ہے، اس لیے نئی دہلی نہیں چاہے گا کہ اس کا بنیادی تزویراتی حریف کابل پر یکطرفہ اثر و رسوخ رکھے۔‘

 انہوں نے کہا کہ ماضی میں پاکستان کا طالبان پر ایسا ہی اثر و رسوخ تھا، لیکن اسلام آباد کے ساتھ ان کے بگڑتے تعلقات کی وجہ سے، نئی دہلی کابل پر ’اثر و رسوخ پیدا کرنے اور ایک علاقائی طاقت کے طور پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے' کے موقعے طور پر دیکھتا ہے۔

جب طالبان نے چار سال قبل کابل کا انتظام سنبھالا تو انڈین سکیورٹی تجزیہ کاروں کو ڈر تھا کہ اس سے ان کے سخت حریف پاکستان کو فائدہ ہوگا اور کشمیر کے متنازع علاقے میں طویل عرصے سے دبی ہوئی بغاوت کو ایندھن ملے گا، جہاں شدت پسند پہلے ہی اپنی جڑیں مضبوط کر چکے ہیں۔

لیکن نئی دہلی نے ان خدشات کے باوجود طالبان کے ساتھ مستقل رابطہ برقرار رکھا اور طالبان کے اقتدار میں واپسی کے ایک سال بعد، 2022 میں، کابل میں ایک ٹیکنیکل مشن قائم کیا، جس کا مرکز انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد اور ترقیاتی معاونت تھا۔ اس نے بیک چینل سفارت کاری اور علاقائی فورمز کے ذریعے مذاکرات جاری رکھے، جس کے نتیجے میں اس سال دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے تعلقات کو فروغ ملا'۔

طالبان کی تنہائی

انڈیا ایک طویل عرصے سے ہزاروں افغان شہریوں کی میزبانی کر رہا ہے، جن میں طالبان کے اقتدار کے بعد ملک سے فرار ہونے والے طلبہ اور تاجر بھی شامل ہیں۔ افغانستان کا سفارت خانہ نئی دہلی میں نومبر 2023 میں مستقل طور پر بند ہو گیا تھا، لیکن اس کے قونصل خانے ممبئی اور حیدرآباد میں محدود خدمات کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

طالبان نے کئی ملکوں کے ساتھ اعلی سطح کی بات چیت کی اور چین اور متحدہ عرب امارات سمیت کچھ ملکوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے۔ جولائی میں روس طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک بنا، اس کے بعد کہ اس نے اس گروہ کو کالعدم تنظیموں کی اپنی فہرست سے نکال دیا۔

اس کے باوجود طالبان حکومت عالمی سطح پر نسبتاً تنہائی کا شکار رہی ہے، زیادہ تر خواتین پر اس کی پابندیوں کی وجہ سے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا