خودکش عدالت میں داخل ہو جاتا تو تباہ کن ہوتا: زخمی پولیس اہلکار

جی 11 دھماکے سے 12 افراد جان سے گئے اور 36 افراد زخمی ہوئے جن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔

اسلام آباد میں ضلعی عدالتوں کے باہر منگل کو ہونے والے خودکش دھماکے کے زخمیوں میں شامل پولیس اہلکار 42 سالہ محمد عمران کا کہنا ہے کہ اگر بمبار عدالت کی عمارت میں داخل ہو جاتا تو یہ تباہ کن ثابت ہو سکتا تھا۔

42 سالہ محمد عمران نے بدھ کو واقعے کی روداد بتاتے ہوئے مزید کہا: ’ہم نے اپنی وین دروازے کے بالکل سامنے پارک کی تھی۔ یہ دھماکہ بہت اچانک ہوا۔ جب میں گاڑی کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا، تو ہر طرف افراتفری تھی۔ یہ ایک بہت سنگین صورت حال تھی، آگ نے ہر چیز کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ پھر ہمیں وہاں سے لے جایا گیا اور ابتدائی طبی امداد دی گئی۔‘

اسلام آباد میں ضلعی عدالتوں کے باہر منگل کو ہونے والے خودکش دھماکہ میں 36 افراد زخمی ہوئے ہیں جن میں سے تین کی حالت تشویش ناک ہے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے بتایا تھا کہ دھماکہ سے 12 افراد جان سے گئے اور 27 افراد زخمی ہوئے۔ تاہم زخمی ہونے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ 

پمز ہسپتال کی ترجمان عنیزہ جلیل نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا کہ گذشتہ روز اسلام آباد کے سیکٹر جی 11 میں واقع ضلعی عدالتوں کے باہر خودکش دھماکہ میں زخمی ہونے والے افراد  میں سے 13 افراد پمز ہسپتال میں زیر علاج ہیں جن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔

وزیر داخلہ محسن نقوی نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا تھا کہ خودکش بمبار دھماکہ سے تقریبا 15 منٹ قبل ضلعی عدالتوں کے باہر پہنچا اور اندر جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن ناکام ہونے پر سامنے کھڑی پولیس وین کے پاس خود کو اڑا لیا۔ 

ترجمان پمز نے بتایا: ’پمز ہسپتال کی ایمرجنسی میں 36 زخمی مریض لائے گئے۔ ان میں سے 11 افراد کی موت واقع ہو چکی تھی جبکہ باقی زخمیوں کو مختلف نوعیت کی چوٹیں آئی ہیں۔‘

عنیزہ کا کہنا ہے کہ ’دھماکے میں پیلٹ گن کی گولیاں اور دھماکہ کے اثرات کے باعث زخمی ہونے والے افراد کو فوری طور پر علاج کے لیے لایا گیا تھا۔ کچھ افراد کو گر کر چوٹیں آئیں اور ان کے جسموں میں پیلٹس کی موجودگی کی وجہ سے ان کی حالت سنگین ہو گئی تھی۔‘

ترجمان پمز کا کہنا ہے کہ زخمیوں کو فوری طور پر مختلف شعبوں جن میں نیوروسرجری، آرتھوپیڈکس اور جنرل سرجری  شامل ہیں، کی ٹیموں نے ان مریضوں کا علاج کیا۔ اس وقت بھی 13 مریض ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جن میں سے تین کی حالت نازک ہے۔‘

عنیزہ جلیل نے تشویش ناک حالت کے مریضوں کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا: ’ایک مریض نیوروسرجیکل ٹراما میں داخل ہے، دوسرا سرجیکل آئی سی یو میں زیر علاج ہے اور تیسرا مریض جس کا لیپروٹومی کا پروسیجر کیا گیا تھا، وہ بھی نازک حالت میں ہے۔

ترجمان کے مطابق باقی زخمیوں کو دیگر کلنیکل ڈیپارٹمنٹس میں منتقل کر دیا گیا ہے اور ان کا علاج جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پمز کی ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ اس دھماکے میں زخمی ہونے والے افراد میں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں جنہیں دیگر مریضوں کے ساتھ فوری طور پر ہسپتال منتقل کیا گیا۔ 

دوسری جانب دوسری جانب حکومت واقعے کے فوری بعد کارروائی جاری رکھے ہے اور معاملہ کی تحقیقات جاری ہیں۔

انسپکٹر جنرل اسلام آباد نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دھماکے کی تحقیقات میں جدید ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے 92 فوٹیجز اکٹھی کی گئیں تاکہ حملہ آور کے بارے میں حتمی شواہد حاصل کیے جا سکیں۔

آئی جی کے مطابق: ’ابتدائی فرانزک شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حملے میں آٹھ کلوگرام تک بارودی مواد اور بال بیرنگز استعمال کیے گئے۔ اب تک کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ حملہ آور ایک ہی تھا، تاہم اس کے ہینڈلر سے متعلق شواہد کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ایک موٹر سائیکل اور ایک گاڑی کو مشکوک قرار دیا گیا ہے، جن کے بارے میں کیمروں کی بیک ٹریکنگ کے ذریعے مزید شواہد جمع کیے جا رہے ہیں۔

ان کے بقول: ’تحقیقات کے عمل میں فرانزک ماہرین، سی ٹی ڈی، انویسٹی گیشن ٹیم، سیف سٹی پروجیکٹ اور حساس ادارے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔‘

آئی جی نے کہا تحقیقات کو شفاف اور تیز رفتار انداز میں مکمل کیا جائے گا اور جلد تمام حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں گے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان