معاشی اصلاحات کی تاریخ میں نجکاری دو دھاری تلوار کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر اسے قابل اعتماد وعدوں کے ساتھ عملی جامہ پہنایا جائے تو یہ کارکردگی اور ترقی کا محرک بن سکتی ہے، لیکن اگر یہ بے اعتمادی کی دلدل میں پھنس جائے تو معاشی جمود کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
روس میں 1990 کی دہائی میں اثاثوں کی کوڑیوں کے بھاؤ فروخت سے لے کر انڈیا میں ٹیلی کام کی کامیاب نیلامی تک، ترقی پذیر دنیا کا تجربہ واضح ہے۔ کامیابی کا انحصار صرف اثاثے بیچنے پر نہیں، بلکہ ایسے ادارے تشکیل دینے پر ہے جو سرمایہ کاروں کے منافعے کو سیاسی من مانیوں سے محفوظ رکھ سکیں۔
افسوس کہ پاکستان مؤخر الذکر صورت حال کی مثال پیش کرتا ہے۔ اس وقت حکومت پی آئی اے جیسے خسارے میں چلنے والے ادارے، جو معیشت کے گلے کا طوق بن چکا ہے، اور بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں سے جان چھڑانے کے لیے نجکاری کی کوششوں میں مصروف ہے۔ تاہم اس عمل کے دوران مقامی سرمائے کا انخلا اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کی مایوسی کا ایک خطرناک امتزاج جنم لے رہا ہے، جو کم سرمایہ کاری اور سست معاشی ترقی کے ایک نہ ختم ہونے والے گرداب کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔
کراچی میں بجلی بنانے والی کمپنی کے الیکٹرک کے معاملے میں حالیہ شدت، جہاں سعودی اور کویتی حصہ داروں نے مبینہ طور پر دو ارب ڈالر کی ثالثی کے لیے نوٹس بھیجا ہے، ایک واضح تنبیہ ہے۔
ذرا ملکی معیشت کے پس منظر پر غور کریں۔ پاکستان کی معیشت، جو طویل عرصے سے مالی بے اعتدالی اور بیرونی کھاتوں کے عدم توازن کا شکار ہے، اب نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم کی طرف دیکھ رہی ہے تاکہ بجٹ کے وسیع خسارے، جو موجودہ مالی سال میں مجموعی قومی پیداوار کے چار فیصد کے قریب متوقع ہے، کو پورا کیا جا سکے اور غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔
اس کے باوجود، سرمایہ کاری کا بہاؤ خطرناک حد تک گر چکا ہے اور حالیہ برسوں میں ایک ارب ڈالر سے بھی نیچے آ گیا ہے۔ یہ محض کوئی وقتی بدقسمتی نہیں بلکہ نظام میں گہرے بگاڑ کی علامت ہے۔ مقامی کاروباری شخصیات، جو کبھی سرمایہ کاری کا ستون ہوا کرتی تھیں، اب اپنا پیسہ کم منافع والے بینک اکاؤنٹس یا میوچل فنڈز میں رکھ کر بیٹھی ہیں، کیوں کہ ریاست کی اجازت کے بغیر 50 لاکھ ڈالر سے زائد رقم باہر منتقل کرنے پر غیراعلانیہ پابندی عائد ہے۔
یہ اندرونی کمزوری نجکاری کی کچھوے کی چال سے خوفناک حد تک مماثلت رکھتی ہے۔ نجکاری کمیشن، جسے پی آئی اے جیسے خسارے والے اداروں کو بیچنے کا کام سونپا گیا ہے، نہ صرف دفتری سستی کا سامنا کر رہا ہے بلکہ سرمایہ کاروں کی جانب سے ٹھوس ضمانتوں کے مطالبات بھی سن رہا ہے، جن میں لندن میں انگریزی قانون کے تحت ثالثی، منافع کی واپسی کی یقین دہانی اور کرنسی کے اتار چڑھاؤ سے تحفظ شامل ہے۔
پی آئی اے کے ممکنہ خریدار، آئی ایم ایف کی جانب سے سیلز ٹیکس کی صفائی کے باوجود، اب بھی ہچکچا رہے ہیں اور ایسی شرائط پر اصرار کر رہے ہیں جو انہیں ’مقامی عدالتی فیصلوں کے غیر یقینی پن‘ سے محفوظ رکھیں۔
یہ ایک منطقی سوچ ہے کہ آخر کوئی ایسی جگہ سرمایہ کیوں لگائے گا، جہاں پالیسی میں اچانک یو ٹرن، ٹیرف میں من مانی تبدیلیاں اور قوانین کے نفاذ میں عدم تسلسل نے طویل عرصے سے لین دین کی لاگت بڑھا رکھی ہو اور منافعے کو کھا لیا ہو؟
اب ذرا کے الیکٹرک کو دیکھیں، جسے کبھی اصلاحات کی روشن مثال قرار دیا جاتا تھا۔ 2005 میں سعودی عرب کے الجمعیہ پاور اور کویت کی ڈینہم کیپیٹل کی قیادت میں ایک کنسورشیم نے اسے خریدا، جس کا وعدہ 38 لاکھ صارفین کے لیے بجلی کے فرسودہ نظام کو جدید بنانا تھا۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد، شکایات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔
نیپرا کی جانب سے ٹیرف کی منظوری میں مسلسل تاخیر، اربوں روپے کی ناقابل وصول سبسڈیز، اور انتظامی حقوق میں مبینہ مداخلت، جس میں چین کی شنگھائی الیکٹرک پاور کو 1.77 ارب ڈالر کی فروخت کا ناکام ہونا بھی شامل ہے۔
بنیادی طور پر، یہ ’وعدہ خلافیوں‘ کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ نجکاری کے اصل معاہدے میں یہ طے تھا کہ ادارے کو پرانے بوجھ جیسے بجلی چوری، پرانے بنیادی ڈھانچے اور سیاسی مداخلت سے نمٹنے کے لیے سبسڈی دی جائے گی، لیکن جیسے جیسے پاکستان میں توانائی بحران گہرا ہوتا گیا، یہ وعدے کمزور پڑتے گئے۔ سرمایہ کار اسلام آباد پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ’ٹیرف کے نفاذ میں رکاوٹ‘ ڈال رہا ہے اور اپنے نمائندوں کے ذریعے ادارے پر قبضے کی کوشش کر رہا ہے، جس سے ان کا کنٹرول اور منافع متاثر ہو رہا ہے۔
ماہرین معاشیات اسے مالیاتی جبر کی کلاسیکی مثال قرار دیں گے۔ یعنی ایسے کنٹرول جو سرمائے کو ملک کے اندر قید کر دیتے ہیں جبکہ خطرات میں اضافہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں، مقامی اور غیر ملکی دونوں سرمایہ کار ایسے ممالک کا رخ کر رہے ہیں جہاں جائیداد اور سرمائے کے حقوق محفوظ ہوں۔ کے الیکٹرک کی مشکلات اس بات کا ثبوت ہیں کہ خلیجی ممالک کی سرمایہ کاری بھی ریگولیٹری من مانیوں کے بھنور میں پھنس سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غیر ملکی سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) اپنی نچلی ترین سطح پر ہے اور پاکستان کی معاشی ترقی تین فیصد سے کم ہے، جو نوجوان آبادی کو روزگار دینے اور 135 ارب ڈالر کے بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے درکار سات فیصد سے بہت کم ہے۔ بجلی کے شعبے کا گردشی قرضہ، جو اب 1.693 کھرب روپے تک پہنچ چکا ہے، اس معاشی جمود کی بدترین مثال ہے۔
سنجیدگی دکھانے اور اعتماد بحال کرنے کے لیے، پاکستان کو چاہیے کہ نجکاری شدہ اثاثوں کو آزاد ریگولیٹرز کے ذریعے تحفظ فراہم کرے، ثالثی کی شقوں پر عمل درآمد یقینی بنائے اور سرمائے پر عائد پابندیوں کو بتدریج ختم کرے۔
کے الیکٹرک کے لیے فوری تصفیہ، شاید سبسڈی اور ٹیرف میں اضافے کے ذریعے، ثالثی سے بچنے اور اعتماد بحال کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ وسیع تر تناظر میں، حکومت سے حکومت کے معاہدوں کو ترک کر کے شفاف نیلامی کا طریقہ اپنانا سب کے لیے یکساں مواقع فراہم کرے گا اور قومی مفادات کو جغرافیائی و سیاسی دباؤ سے بچائے گا۔
آج کی آفاقی دنیا میں جہاں سرمایہ آزادانہ نقل و حرکت کرتا ہے، پاکستان میں نجکاری کا جمود محض ایک داخلی ناکامی نہیں بلکہ یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف ہے جو مدد کرنے والوں کو بھی دور بھگا رہا ہے۔
جب تک اسلام آباد آمدنی کے حصول کے لیے ریونیو چھاپوں پر قانون کی حکمرانی کو ترجیح نہیں دیتا، اس کی معاشی بحالی کے خواب محض خواب ہی رہیں گے۔ ایسے خواب جن کی تعبیر انہی ہاتھوں نے روک دی ہے جنہیں اسے حقیقت میں بدلنا تھا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم گار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔