میڈیا میں کام کرنے والوں کو چھٹی کیوں نہیں ملتی؟

جب پورے ملک میں چھٹی کا سماں ہو، لوگ گھروں میں دبکے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہوں اور میڈیا میں کام کرنے والے خالی، سنسنان اور سائیں سائیں کرتی شاہراہوں پر دفتر کی جانب کسی ‘ناکام عاشق‘ کی طرح رواں دواں ہوتے ہیں۔

(تصویر: پکسا بے)

’الیکٹرونک میڈیا میں کام کرنے والے ملازم کے لیے چھٹی کا حصول ایسا ہی ہے جیسے پرانی فلموں میں ’گواہ‘ کو عدالت تک لے جانا۔‘

یہ ہمارے ایک ساتھی کا کہنا ہے جس سے کسی حد تک اتفاق کیا جا سکتا ہے اور کافی حد تک اختلاف بھی کیونکہ ہمارے حلقہ احباب میں کئی ایسے کرم فرما ہیں، جو کسی کام کے ماہر ہوں نہ ہو، ہاں ’چھٹی مارنے‘ میں ان کا کوئی ثانی نہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ ان پر ’اُف‘ بھی نہیں کی جاتی اور بیشتر ایسے بھی ہیں، جن کے لیے ’صرف‘ ایک تعطیل کا حصول واقعی پرانی فلموں کے گواہ والا معاملہ بن جاتا ہے۔

درحقیقت کسی نیوز چینل میں کام کرنے والے’جنگجو‘ اور ’باہمت کارکن‘ سے آپ دریافت کریں کہ ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ مرحلہ کون سا ہوتا ہے تو جواب عین ممکن ہے یہ ملے کہ جب پورے ملک میں چھٹی کا سماں ہو، لوگ گھروں میں دبکے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہوں اور وہ خالی، سنسنان اور سائیں سائیں کرتی شاہراہوں پر دفتر کی جانب کسی ‘ناکام عاشق‘ کی طرح رواں دواں ہوتے ہیں۔

اس وقت ذہن میں ان گنت سوال گردش کرتے ہیں، نیوز چینلوں کے علاوہ کام کرنے والے ملازمین کی قسمت پر رشک آتا ہے، وہیں خود کو کوسنے کو بھی دل چاہتا ہے کہ کس نے بددعا دی تھی جو اس شعبے میں آ دھمکے؟

ہمارے ایک ’سیانے‘ ساتھی کہتے ہیں کہ چھٹی مانگنا اور کرنے کے بعد بہانہ بنانا بھی ایک ’آرٹ‘ ہے اور جو اس فن میں مشاق ہوں، ان کے لیے چھٹی کا حصول اتنا ہی آسان ہے، جیسے مصباح کا سرفراز کو ٹیم سے نکالنا رہا۔

موصوف کے فرمودات کے مطابق دراصل چھٹی مارنے کی ’ٹائمنگ‘ کا آپ کو پتہ ہونا چاہیے۔ کب، کیسے اور کس طرح چھٹی کرنی ہے، اس کی’نازک صورت حال‘ پر عبور ہونا چاہیے اور یہ فن موصوف کو خوب آتا ہے۔ جب چھٹی کرنی ہوتی ہے تو ایک دن پہلے ہی ماحول ایسا بنا دیتے ہیں کہ ان کی صحت کے بارے میں تشویش ہونے لگتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

زور زور سے کھانس کھانس کر پورے دفتر کے درودیوار ہلانے کی کوشش کرتے ہیں، بات بے بات پر برا سا منہ مناتے، دو قدم چلنا ہوتا تو دیکھ کر لگتا ہے جیسے پلِ صراط پر چل رہے ہوں۔ ایک ایک جملے کو دھیرے دھیرے سے ادا کرتے، ساتھ ساتھ چہرے کے بدلتے چڑھتے تاثرات بھی ایسے کہ پل بھر کو پتھر دل انسان بھی پگھل جائے۔

بیشتر ساتھی ’پرائی بیماری میں عبداللہ دیوانہ‘ بن کر کہہ اٹھتے ہیں: ’یار آج آئے ہی کیوں؟‘ اور اس اظہارِ ہمدردی کا صلہ یہ ملتا کہ موصوف پھر اگلے ہی روز دفتر سے اڑن چھو ہو جاتے ہیں۔ گواہی سب دیتے کہ ہاں بے چاروں کی کل بھی حالت پتلی ہو رہی تھی۔ ابتدا میں ہم بھی تیمارداری کرتے ہوئے روایتی سفارتی جملے ادا کرتے، لیکن دھیرے دھیرے ہم پر یہ پردہ کھلتا چلا گیا اور دل ہی دل میں ہم بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ’یہ جو کھانسی وانسی ہے اس کے پیچھے چھٹی ہے۔‘ کئی بار جب وہ نزلہ، زکام یا بخار ہونے کی آسکر وننگ اداکاری کر رہے ہوتے تو ہم برجستہ کہہ دیتے کہ ’کیوں بھائی کل کیا چھٹی آرہی ہے!‘

ہمارے ارد گرد کچھ ایسے بھی صاحبان ہیں جو کسی کام میں مقابلہ بازی کریں نہ کریں، چھٹی میں ضرور کرتے ہیں۔ اگر کسی نے یہ جسارت کی تو وہ بھی اپنا فرض سمجھ کر اگلے روز یا اسی ہفتے دفتر سے غائب ہونے میں کوئی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ جبھی کہنے کو دل چاہتا کہ ’چھٹی سے کس کی یاری ہے، آج تری باری ہے کل میری باری ہے!‘

ویسے جب ایسے صاحبان سے باز پرس کی جائے تو جواب یہ ملتا کہ ’فلاں شخص نے اُس دن چھٹی کی تو آپ نے اُن کو تو کچھ نہیں کہا، ہمارے ساتھ کورٹ کچہری لگا دی۔‘ ایسی صورت حال میں خاموشی کے علاوہ دوسرا کوئی رستہ نہ ہوتا۔

ویسے چھٹی کی تاریخ میں اختر بھائی کا نام سنہری الفاظ میں لکھنا چاہیے، جنہوں نے دفتر سے غیر حاضری کے لیے گلا خراب ہونے کا بہانہ گھڑا۔ گویا ملازم نہ ہوں کوئی گویے ہوں۔ جن کے گلے سے سُر نہیں نکل رہے تھے اور اسی لیے آرام کرنے کو ترجیح دی۔ حالانکہ موصوف کا کام روزانہ اینٹیں اٹھانے والے جیسا ہی تھا۔ جس میں ’گلے‘ سے زیادہ ’ہاتھ‘ چلتے۔

اسی طرح ایک صاحب ایسے بھی ہیں جو بغیر بتائے چھٹی کرنے کے عادی رہے۔ ہاں کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے اپنے افسر کے پاس جاتے تو کمرے سے نکلتے وقت بڑے برے برے منہ بناتے۔ دریافت کیا جاتا تو فرماتے کہ ’عجیب ہیں چھٹی مانگی تو لگا جیسے ادھار مانگ لیا ہو۔ کہتے ہیں کہ تم نہیں آئے تو کام کون کرے گا اور جب کام کر رہا ہوتا ہوں تو یہ طعنہ مارتے ہیں کہ تم ایک ٹکے کا بھی کام نہیں کرتے۔ تمہارا کام میں کوئی دل ہے ہی نہیں؟‘

ہمارے ایک کرم فرما قربان صاحب بھی تھے، جو صرف ایک چھٹی کے چکر میں اپنے سارے خاندان کو قربان کرتے چلے آئے ہیں۔ ایک دن راہداری میں پریشان پریشان نظر آئے تو پوچھنے پر بولے کہ ’سب کو ہی دوسرے جہاں پہنچا چکا ہوں، سوچ رہا ہوں کہ چھٹی کے لیے اب کس کی جان کا نذرانہ پیش کروں؟‘

اسی طرح ایک اور ساتھی ایسے بھی ہیں جن کے زینے کی نکلی ہوئی ’گرِل‘ ان کے لیے چھٹی کا پیغام لاتی ہے۔ کیونکہ موصوف کئی بار اس سے الجھ کر ’بسترِ تعطیلات‘ پر جا گرتے ہیں۔ کوئی بولے کہ بھائی ’گرِل‘ کیوں صحیح نہیں کراتے تو زیر لب مسکراتے ہوئے کہتے ہیں: ’پھر چھٹی کیسے کروں گا؟‘

کچھ ایسے بھی فرض شناس ہیں جو دوسروں کی نگاہوں میں اس لیے بے توقیری کا شکار رہتے ہیں کیونکہ وہ چھٹی نہیں کرتے یا پھر کرلیں تو ہفتہ وار تعطیل پر آگ کے دریا کو پار کرکے دفتر آجاتے ہیں، جس کے بعد احباب چھٹی انہیں خوب لعن طن کرتے کہ تم غلط روایت کی بنیاد ڈال رہے ہو!

اس چھٹی کی راہ میں ایسے بھی احباب ہیں جن کا بخار بھی یومیہ بنیادوں پر ہو کر انہیں ’چھٹی کا تحفہ‘ دے جاتا ہے اور کچھ ایسے بھی خوش قسمت ہوتے ہیں جو ہفتہ وار چھٹی سے پہلے یا پھر بعد میں اسی بخار کا ’بہانہ‘ بنا کر بھرپور ویک اینڈ مناتے ہیں۔

ویسے اس معاملے میں چند خواتین بڑی خوش نصیب ہیں جن کو چھٹی کرنے کے لیے ’سفارتی استثنیٰ‘ حاصل ہے۔ کبھی خود کی، کبھی امی کی، کبھی ابو کی تو کبھی آپی کی تو کبھی منے کی اور کبھی اُن کی طبعیت میں کیسے بگاڑ آ سکتا ہے، یہ فن بس انہی پر ختم ہے۔ کہنے کو بس یہی دل چاہتا ہے؎

مکتبِ عشق کا ہے دستور نرالا دیکھا
اس کو چھٹی نہ ملی جس کو سبق یاد ہوا

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ