پرانا سال، باسی احتساب اور کپتان

گرفتار سیاست دانوں کے خلاف مقدمات ثابت نہ کر سکنے کا معاملہ ایسا ہی رہا تو ناصرف پاکستان تحریک انصاف کا بیانیہ پٹ جائے گا بلکہ ان کی حکومت بھی پٹ جائے گی۔

بدقسمتی سے احتساب کے خلاف عمران خان  کا بیانیہ جتنا مضبوط ہے عدالتوں میں مقدمات ثابت کرنے میں نیب اور حکومت کی کارکردگی اتنی ہی کمزور(پی آئی ڈی)

وزیر اعظم عمران خان  نے جس ایک بات پر یوٹرن نہ لینے کی روایت قائم کر رکھی ہے وہ ہے کرپٹ سیاست دانوں کا احتساب۔

بدقسمتی سے احتساب کے خلاف ان کا بیانیہ جتنا مضبوط ہے عدالتوں میں مقدمات ثابت کرنے میں نیب اور حکومت کی کارکردگی اتنی ہی کمزور۔ یخ بستہ دسمبر جاتے جاتے عمران خان کے احتساب کے بیانیے کو گہرا نقصان پہنچا کر جا رہا ہے۔

مفتاح اسماعیل اور رانا ثنا اللہ کے خلاف مقدمات پر عدالتی کارروائی پر اٹھنے والے سوالات سے ناصرف ان کیسز میں موجود قانونی جھول عوام کے سامنے آئے بلکہ ان مقدمات کی پیروی کرنے والے سرکاری اداروں کی نالائقی کے پول بھی کھل گئے۔ عمران خان کے احتساب کے بیانیے کو 2019 کی آخری اور سب سے بڑی چوٹ خود ان کی حکومت نے نیب آرڈیننس میں ترمیم کی صورت میں لگائی ہے۔

اس آرڈیننس سے سرکاری افسران کی نااہلی اور کرپشن کو نیب کی پوچھ گچھ اور کارروائی کے دائرے سے نکال دیا گیا، اسی طرح تاجر برادری کو بھی نیب کے مضر اثرات سے تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔

عمران خان نے اپنے تاجر دوستوں کو، جن پر ان کے مطابق نیب کے مقدمات بھی قائم ہیں، آرڈیننس کے اجرا کی خوش خبری ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دی۔ اس حکومتی آرڈیننس سے استفادہ کرنے والوں میں وزیر اعظم کے اپنے دوست بھی شامل ہیں۔

آرڈیننس پر حزب اختلاف حکومت پر اپنے دوستوں کو نوازنے اور بی آر ٹی جیسے منصوبوں پر پوچھ گچھ روکنے کی سازش جیسے الزامات لگا رہی ہے۔ اس الزام کے آدھے حصے کی تو خود وزیر اعظم نے تصدیق کر دی۔ دوسری جانب یہ آرڈیننس حکومت کے اپنے بیانیے سے بھی متصادم ہے، جس کے مطابق حکومت اور خان صاحب ہمیشہ یہ دعویٰ کرتے رہے کہ احتساب سب کا بلاامتیاز ہو گا۔

اب یہ سوال عوامی حلقوں سے اٹھنے لگا ہے کہ کیا سیاسی رہنماؤں پر بنائے جانے والے مقدمات قانونی طور پر کمزور ہیں یا حزب اختلاف کا سیاسی انتقام کے الزام میں کہیں کوئی صداقت ہے۔ بات ایک دو مقدمات کی ہوتی تو شاید یہ کمزوری پردے میں رہتی لیکن درجنوں سیاسی رہنماؤں کے خلاف سنگین الزامات کے بعد عدم ثبوت کا معاملہ اب احتساب کے غبارے سے ہوا نکالنے والا ہے۔

عمران خان صاحب کے لیے اس غبارے کا پھولے رہنا اتنا ہی ضروری ہے جیسے وہ خود پاکستان تحریک انصاف کے لیے ضروری ہیں۔

خان صاحب نے کرپٹ سیاست دانوں کے احتساب کا نعرہ اونچی سروں اتنی بار دہرایا ہے ان کے وزرا ہر نئی گرفتاری کو کپتان کی فتح گردانتے ہوئے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور تبدیلی کے متوالے ان گرفتاریوں پر جھومتے اور دھمالیں ڈالتے ہیں۔ جوش خطابت میں یا اپنی ازلی معصومیت میں، بہرحال عمران خان نے اپنی حکومت کی کامیابی کو کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف احتساب سے خود ہی مشروط کیا۔

اب گرفتار رہنماؤں کے خلاف مقدمات کو ثابت نہ کر سکنے کا معاملہ ایسا ہی رہا تو ناصرف ان کا بیانیہ پٹ جائے گا بلکہ تحریک انصاف کی حکومت بھی پٹ جائے گی۔ سیاست دانوں کے احتساب کا معاملہ اب عوامی حلقوں میں سیاسی انتقام کے معنی اختیار کرنے لگا ہے۔

یہ اخذ کرنا کافی مشکل ہے کہ کیا خان صاحب اتنے سادہ ہیں کہ انہیں علم ہی نہیں کہ الزامات کو ثابت کرنا الزام لگانے والے کی قانونی اور اخلاقی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یا وہ سب جانتے ہیں اور عوام کو اتنا معصوم سمجھتے ہیں کہ محض گرفتاریوں کو بہت اعتماد سے اپنے بیانیے کی فتح کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ یا پھر ان کی قانونی ٹیم ان کو ایسے سہانے خواب دکھاتی ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی رہنما کی گرفتاری کو فتح سمجھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ان میں سے جو بھی صورت حال ہے سب سے اہم اور لازمی سوال یہ ہے کہ خان صاحب کب ان ناکامیوں اور کمزوریوں پر توجہ دینا شروع کریں گے۔ میں کافی غور سے خبر کے ذرائع دیکھتی رہی کہ شاید کہیں خبر ہو کہ شہریار آفریدی کے بلند بانگ دعوے جھوٹ ثابت ہونے پر خان صاحب نے کسی ناگواری کا اظہار کیا؟ لیکن حسب توقع ایسا کچھ ہوا نہیں بلکہ وزیر موصوف اس سارے معاملے میں اپنے دعوؤں کا شاید عمران خان صاحب کو بتاتے رہے کہ جو فوٹیج تھی وہ انہوں نے وزیر اعظم کو دکھائی ہے۔

اللہ کو جان دینے کی قسم بھی کھائی اور دلچسپ بات یہ کہ رانا ثنا اللہ کی ضمانت کے بعد بھی وہ ڈھٹائی سے اپنے دعوؤں پر ناصرف قائم رہے بلکہ اس میں الفاظ کا مزید تڑکا بھی لگایا۔ اسی طرح مفتاح اسماعیل کے کیس میں نیب کی طرف سے لولی لنگڑی توجیہات اور عدالت کی برہمی پر بھی خان صاحب نے کوئی ردعمل نہیں دیا۔

اصولی طور پر جس ادارے کی کارکردگی عمران خان کے لیے سبکی کا باعث بن رہی ہے اس پر کچھ تو ایکشن لینا چاہیے مگر حکومت ناکام مقدمات کا دکھ بھول کر نئی گرفتاری کا جشن منانے لگی۔ اگرچہ حکومت کے ہاتھ احسن اقبال کی گرفتاری کی صورت میں ایک نئی فتح کا موقع آ گیا۔ کیا تحریک انصاف کی حکومت یہ سوچ رہی ہے کہ اگر اس مقدمے کا انجام بھی وہی ہوا جو مفتاح اسماعیل اور رانا ثنا اللہ کے مقدمے میں بظاہر نظر آ رہا ہے تو ان کا کیا نقصان ہو گا؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نیب کی مسلسل نالائقی اور حکومت کی مقدمات ثابت کرنے میں ناکامی سے حزب اختلاف کے بیانیے میں جان پڑنے لگی ہے۔ تو کیا یہ پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے پریشانی کا باعث نہیں ہونا چاہیے؟ بظاہر لگتا ہے کہ اس صورت حال سے حکومت بالکل پریشان نہیں۔ یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ آخر اس بےنیازی کی وجہ کیا ہے؟

کیا تحریک انصاف کی حکومت ہر معاملے میں غیبی مدد پر انحصار کر رہی ہے؟ سینیٹ چیئرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک تو غیبی مدد سے ناکام ہو سکتی ہے لیکن کپتان کا ناکام ہوتا بیانیہ کسی غیبی مدد سے کامیاب نہیں بنایا جا سکتا۔

جو لوگ عمران خان کو ایسے کسی ٹرک کی بتی کے پیچھے چلا رہے ہیں وہ ان کے مخلص نہیں اور خان صاحب جس قدر جلد ان لوگوں کے ٹولے سے جان چھڑا لیں گے ان کی گرتی سیاسی ساکھ کے لیے بہتر ہو گا۔ ان ناکام مقدمات کے باوجود خان صاحب کی سیاست دانوں کے خلاف جاری احتسابی مہم پر گفتگو اسی زور و شور سے جاری ہے۔ ان کی پرسکون مسکراہٹ دیکھ کر یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ اپنے بیانیے اور دعوؤں کی ناکامی کو جانچ رہے ہیں۔

حکومتی ساکھ اس احتساب کے عمل سے جوڑنے والا کوئی اور نہیں خود عمران خان ہیں۔ گذشتہ ڈیڑھ سال میں خان صاحب سے جب بھی کسی صحافی نے حکومت کی کارکردگی کے بارے میں کوئی سوال کیا انہوں نے ہمیشہ جواب میں کرپشن کے خلاف احتساب اور بڑے سیاست دانوں کی گرفتاریوں کو کارکردگی بنا کر پیش کیا۔

خان صاحب کا سب سے پسندیدہ جملہ یہ رہا کہ ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے مگر گرفتار سیاسی رہنماؤں کو اب عدالتوں نے چھوڑنا شروع کر دیا ہے۔ عدالتوں میں مقدمات شواہد کی بنیاد پر لڑے جاتے ہیں، بیانیے کی جنگ سوشل میڈیا پر جیتی جا سکتی ہے مگر عدالتیں اس کے رعب میں نہیں آتیں۔

ان مقدمات کی کارروائی کے دوران حکومتی اداروں کی اہلیت اور نیت پر اٹھائے جانے والے سنجیدہ سوالات عوامی رائے کو تبدیل کر رہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ پر جو الزامات لگائے گئے اور جس طرح ان کی کردار کشی کی جاتی رہی اور جن ثبوتوں کی بنیاد پر ان کا جسمانی ریمانڈ بھی نہ لیا گیا اور ایک بھی ثبوت عدالت میں پیش نہ کیا جا سکا۔

اسی طرح حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہان سمیت کئی اہم رہنما مہینوں تک نیب کی حراست میں رہے اور بعض رہنما ابھی بھی جیل میں بند ہیں، مگر کسی بھی کیس میں نیب کی جانب سے شواہد پیش کر کے کسی ملزم کو مجرم ثابت نہیں کیا جا سکا۔ تحریک انصاف ان ناکام مقدمات کو اپنی کامیابی کے طور پر زیادہ دیر تک پیش نہیں کر پائے گی۔

حکومت کو اس معاملے میں دانش مندی سے سوچ سمجھ کر کسی حل کی طرف بڑھنا ہوگا۔ حزب اختلاف کی طرف سے سیاسی انتقام کا الزام اگر عوام کو سچ نظر آنے لگا تو حکومت کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے کیونکہ مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ عوام بہت دیر تک اس احتساب کے پھٹے غبارے کو دیکھ کر غم غلط نہیں کر پائیں گے۔

پی ٹی آئی کی حکومت اور کپتان کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سوشل میڈیا کے دور میں یک طرفہ بیانیہ لمبے عرصے تک مسلط رکھنا دیوانے کا خواب ہے۔ الفاظ کی شعبدہ گری شور و غوغا بن کر حقائق سے عارضی طور پر نظر ہٹا سکتی ہے مگر ناکامیوں کو کامیابی میں تبدیل نہیں کر سکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ