کراچی کے علاقے کلفٹن کے رہائشی ندیم سرور کا ہر دوسرے دن کا آغاز صبح پانی کی ٹینکر انتظامیہ کو ٹیلی فون کرنے سے ہوتا ہے۔ رہائشی اپارٹمینٹ میں مقیم ندیم کی طرح کے خاندان اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کے ملک کے سب سے بڑے شہر میں انہیں پینے اور استعمال کرنے کے صاف پانی کا یہی ذریعہ میسر ہے۔
ندیم کہتے ہیں کہ ’پچھلے چھ سالوں سے میں اسی فلیٹ میں مقیم ہوں۔ مجھے ہر دوسرے دن پانی کا ٹینکر منگوانا پڑتا ہے۔‘ ان کی مشکل کراچی میں زندگی کی ایک اہم ترین ضرورت پر ٹینکر مافیا کے راج کی غمازی کرتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق 2015 میں شہر قائد میں 200 سے زائد پانی کے ٹینکر کی کمپنیاں کام کر رہی تھیں۔ تاہم سپریم کورٹ آف پاکستان کی طرف سے سو موٹو نوٹس لیے جانے کے بعد اب چھ تنظیموں نے پورے شہر کو صاف پانی فراہم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ ان میں سے سب سے پرانی اور نامور کمپنی غلام نبی واٹر کانٹریکٹ کی ہے۔ اس ادارے کا اس وقت کراچی میں سب سے وسیع نظام قائم ہے۔ شہر قائد میں پانی کے مسائل کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ہر روز 200 سے 300 ٹینکر شہر کے مختلف حصوں میں پانی مہیا کرتے ہیں۔
سندھ حکومت نے پچھلے کئی سالوں سے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس کی وجہ سے اس طرح کی تنظیموں اور مافیا نے جنم لے لیا ہے جو اپنی مرضی کے ریٹ پر پینے کا پانی فراہم کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ندیم کا کہنا ہے کہ ’آج سے تین چار سال پہلے، یہی انتظامیہ ایک 1000 گیلن ٹینکر کے دو سے ڈھائی ہزار روپے وصول کرتی تھی تاہم اب یہی ٹینکر چھ ہزار روپے کا پڑتا ہے۔‘ اکثر شہری اس مافیا سے پانی منگوانے پر مجبور ہیں کیونکہ حکومت نے کوئی مناسب متبادل نظام وضع نہیں کیا ہے۔ لیکن جو لوگ یہ پیسے ادا نہیں کرسکتے وہ پانی کا بندوبست کس طرح کرتے ہیں اس بارے میں جاننا کوئی زیادہ مشکل نہیں۔
اس کے علاوہ اس پانی کے مسئلے میں بھی کرپشن کا بخوبی طور سے عمل دخل ہے۔ جعلی کمپنیوں نے نچلے طبقے کے پولیس افسر ان کو مبینہ طور پر اپنی مٹھی میں قابو کیا ہوتا ہے جو حکومت کی جانب سے ان کمپنیوں کے خلاف ہونے والے آپریشن سے قبل ہی ان کمپنیوں کو باخبر کر دیتے ہیں۔
پانی کے نایاب ہونے کا یہ مسئلہ صرف پاکستان یا کراچی تک ہی محدود نہیں ہے کیونکہ یہی مسئلہ ہمارے ہمسائے ملک بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی اور بڑے شہر ممبئی، نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو، جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن سمیت دیگر شہروں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ان تمام مثالوں میں پانی مافیا کا تمام چیزوں پر مٹھی بند کنٹرول ہے۔ زمین کے اندر صدیوں پرانے بچھائے گئے پانی کے پائپ بھی اب جواب دے گئے ہیں اور اس کے ساتھ انتظامیہ میں جب کرپشن عروج پر ہو تو پھر ایسے ٹینکر مافیا کا راج بنتا ہی ہے۔
اتوار کی صبح ندیم کی ٹینکر والے کو کال کے جواب میں اسے ایک گھنٹے تک ٹینکر کے پہنچنے کا وعدہ کیا۔ لیکن ندیم پانی کے انتظار میں دو گھنٹے سے بیٹھا ہے۔ ٹینکر کے نہ آنے پر ندیم کے ضمیر سے کچھ ایسی شکایت بھری پکار اٹھی ’ریاست ہمارے لیے کچھ نہیں کرتی جبکہ یہ ٹینکر مافیا ہمیں لوٹتا ہے۔ آخر ہم جائیں تو جائیں کہاں؟‘