سی پیک سے امریکہ کو خائف نہیں ہونا چاہیے: سرتاج عزیز

امریکی وزات خارجہ کی اعلیٰ عہدے دار ایلس ولیز کی سی پیک پر تنقید کے بعد سابق چیئرمین پلاننگ کمیشن سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ پاکستان اور چین کے تعلقات اچھے ہیں اور منصوبے سے کسی تیسرے ملک کو خائف نہیں ہونا چاہیے۔

2016 کی اس تصویر میں نیوی کا ایک اہلکار گوادر میں  پورٹ پر تعینات (اے ایف پی)

امریکہ کی نائب سیکرٹری برائے جنوبی و وسطی ایشیائی امور ایلس ویلز کی پاک چین اقتصادی راہ داری (سی پیک) پر شدید تنقید کے بعد سابق چیئرمین پلاننگ کمیشن اور سابق مشیر خزانہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ اس منصوبے سے کسی ملک کو خائف نہیں ہونا چاہیے۔

سرتاج عزیز نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں واضح کیا کہ سی پیک میں چین کے 50 ارب ڈالرز میں سے 37 ارب ڈالرز سرمایہ کاری ہے جبکہ 13 ارب ڈالرز پاکستان پر قرضہ ہے جس پر صرف دو فیصد سود ہے۔

ان کا کہنا تھا سی پیک کے خلاف ویلز کا بیان ’سیاسی‘ ہے کیونکہ سی پیک کا قرضہ پاکستان کے کل قرضے کا 10 فیصد بھی نہیں بنتا۔

ان دونوں پاکستان کے دورے پر آئی ایلس ویلز نے ایک تھنک ٹینک سے خطاب میں سی پیک پر تنقید کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ ان منصوبوں میں شفافیت نہیں اور پاکستان چین سے مہنگے قرضے لے رہا ہے جو ملکی قرضوں کا بوجھ بڑھائیں گے۔

سی پیک کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات ممکنہ طور پر خراب ہونے پر سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ پاکستان کا چین پر انحصار ہے اور دونوں ممالک میں بہت اچھے تعلقات ہیں۔ ’ون بیلٹ ون روڈ اقتصادی بحالی کا پروگرام ہے اس سے کسی اور ملک کا کوئی نقصان نہیں، اس لیے کسی تیسرے ملک کو خائف ہونے کی ضرورت نہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ منصوبے کے شفاف نہ ہونے کے الزامات درست نہیں کیونکہ سی پیک سے متعلق تمام تفصیلات پلاننگ کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہیں اور بارہا پارلیمنٹ میں پیش کی جا چکی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایلس ویلز نے تھنک ٹینک سے خطاب میں سی پیک منصوبوں میں شفافیت پر سوال اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ کئی ایسی چینی کمپینیوں کو ٹھیکے دیے گئے جنھیں عالمی بینک نے بلیک لسٹ کیا ہے۔

امریکی وازت خارجہ کی اعلیٰ عہدے دار نے مزید کہا کہ چینی پیسے پاکستان کی معاونت نہیں کر رہے بلکہ مہنگے قرضے ہیں جن سے پاکستان کی کمزور معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا۔

دوسری جانب پاکستان میں تعینات چینی سفیر کا کہنا تھا کہ ایلس ویلز کے منفی بیان میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ نومبر 2019 والی تقریر ہے اور اس پرانی تکرار کو پاکستان اور چین دونوں مسترد کر چکے ہیں۔

چینی سفارت خانے سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکہ ابھی تک سی پیک پر اپنی بنائی ہوئی کہانی پر قائم ہے۔ بیان میں کہا گیا: ’ہمیں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے پر خوشی ہے، تاہم ہم سختی سے پاک چین تعلقات اور پاک چین اقتصادی راہ داری میں امریکی مداخلت کی سختی سے بھرپور مخالفت کرتے ہیں۔‘

بیان میں ایلس ویلز کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے مزید واضح کیا گیا کہ بیجنگ چینی کمپنیوں سے ہمیشہ مقامی قوانین کے تحت کام کرنے کی درخواست کرتا ہے اور سی پیک میں شامل ہونے والی تمام کمپنیاں بین الاقوامی تشخص رکھتی ہیں۔

امریکہ کے اس اعتراض پر کے سی پیک کی وجہ سے پاکستان پر قرضہ بڑھ رہا ہے، جواب میں چینی سفارت خانے نے کہا کہ پاکستان کے پاس یہ آپشن موجود ہے کہ وہ چینی قرضہ 20 سے 25 برس کے دورانیے میں دو فیصد شرح سود کے پر ادا کرے۔ ’چین  نے کسی ملک کو قرضوں کی ادائیگی کے لیے جبری طور پر مجبور نہیں کیا۔ چین پاکستان سے بھی غیر معقول مطالبات نہیں کرے گا۔‘

’پرانا بیانیا‘ 

ایلس ویلز سی پیک پر پہلے بھی تنقید کر چکی ہیں۔ گذشتہ برس نومبر میں انھوں نے کہا تھا: ’چین اس وقت دنیا میں قرضے دینے والا سب سے بڑا ملک ہے تاہم یہ قرضے دینے کی اپنی شرائط کو شائع نہیں کرتا جس کی وجہ سے پاکستانیوں کو سی پیک کے حوالے  سے چینی سرمایہ کاری پر سوالات اٹھانے چاہییں۔‘

انھوں نے اسلام آباد کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ سی پیک سے صرف چین کو فائدہ ہو گا اور اگر بیجینگ یہ منصوبہ جاری رکھتا ہے تو کچھ فائدے کے بدلے میں پاکستان کو بڑا معاشی نقصان ہو گا۔

پاکستان میں امریکی سفیر پال جونز نے ان کے بیان کی حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایلس ویلز کے بیان کو مثبت لیا جانا چاہیے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر غور کی ضرورت ہے کیونکہ امریکہ پاکستان میں ترقی اور خوشحالی دیکھنا چاہتا ہے۔ 

تاہم چینی سفیر نے نومبر میں بھی امریکی نائب سیکرٹری کے بیان کو سختی سے مسترد کیا تھا۔

امریکہ کو خطرہ

اس موضوع پر انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سابق سفیرعاقل ندیم کا  کہنا تھا کہ چین امریکہ کا اقتصادی حریف ہے اور امریکہ کو چین کی بڑھتی ہوئی معیشت سے خطرہ ہے اور اسی لیے ان کی جانب سے سی پیک پر بیان بازی کی جاتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا: ’ضروری نہیں کہ ہر معاہدے کی تفصیلات شائع کی جائیں۔ اگر چین ساری شرائط شائع نہیں کر رہا تو یہ کوئی بڑی بات نہیں کیونکہ امریکہ نے جب پاکستان کو ایف سولہ طیارے دیے تھے تو اس کی شرائط بھی راز رکھی گئیں تھیں۔ ‘

عاقل ندیم نے کہا کہ پاکستان کی اگر اقتصادی مجبوری ہے تو امریکہ کی سیاسی مجبوری ہے۔ اس سال امریکہ میں صدراتی انتخابات بھی ہونے والے ہیں اور امریکہ کو افغانستان کے معاملے پر پاکستان کی ضرورت ہے۔ اس لیے ایلس ویلز کے بیان کو مخض بیان ہی سمجھنا چاہیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت