کرونا وائرس کی ویکسین بننے میں اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے؟

اس وقت ہر کوئی بیتابی سے انتظار کر رہا ہے کہ سائنس دان دن رات ایک کر کے ویکسین تیار کر لیں، لیکن یہ کام اتنا آسان نہیں جتنا لوگ سمجھتے ہیں۔

ویکسین کی تیاری ہفت خواں سر کرنے سے کم نہیں (پکسا بے)

دنیا میں بڑے پیمانے پر پھوٹنے والی وباؤں کا سب سے موثر علاج ویکیسین ہے اور انسان نے ویکسینوں کی ہی مدد سے ایسی موذی وباؤں پر قابو پایا ہے جو ماضی میں کروڑوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیتی تھیں۔

لیکن کرونا وائرس کے خلاف ویکسین تیار کرنا اور پھر اسے مارکیٹ میں لانا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ صحت کے حکام کے مطابق اس میں کم از کم ڈیڑھ سال لگ سکتے ہیں، وہ بھی اُس صورت میں جب سب کچھ منصوبے کے مطابق چلے۔ درمیان میں کوئی بھی غیر متوقع رکاوٹ پیدا ہوئی تو یہ دورانیہ بڑھ سکتا ہے۔

اس وقت دنیا میں 35 کے قریب ادارے سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں کہ جلد از جلد کرونا وائرس کی ویکسین تیار کر لی جائے۔ ایک امریکی کمپنی موڈرنا اپریل کے شروع میں تجربات شروع کرنے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں سارس اور مرس پیدا کرنے والے دوسرے کرونا وائرس پر ہونے والی تحقیق سے بھی مدد لی جا رہی ہے۔

اس وقت ہر کوئی بیتابی سے انتظار کر رہا ہے کہ سائنس دان دن رات ایک کرکے ویکسین تیار کر لیں اور وہ اس کی مدد سے کرونا سے محفوظ ہو جائیں۔ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ ماہرین کے مطابق اس عمل میں جتنی بھی جلدی کی جائے، جتنے بھی وسائل بروئے کار لائے جائیں، ایک تا ڈیڑھ سال کہیں نہیں گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن کرونا وائرس تو دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے، پھر اتنی دیر کیوں؟ اس سوال کا جواب ڈاکٹر اینٹنی فاؤچی نے دیا جو امریکہ میں وبائی امراض کے ادارے کے سربراہ ہیں۔

انہوں نے امریکی ایوانِ نمائندگان کی اوور سائٹ کمیٹی کو گذشتہ ہفتے بتایا: ’اتنا ہی وقت لگتا ہے۔ اگر کوئی کہتا ہے کہ اس سے جلدی ہو سکتا ہے تو وہ احتیاطی تدابیر کو نظر انداز کر رہا ہے جو نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘

ویکسین تیار کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔ ایڈز اس کی واضح مثال ہے کہ پچھلے 40 برس کی تگ و دو کے باوجود آج تک اس موذی مرض کی کوئی ویکسین بازار میں دستیاب نہیں ہو سکی۔

سخت احتیاط انتہائی ضروری

ویکسین کی تیاری میں کئی نازک مراحل پیش آتے ہیں جنہیں لوگوں کی صحت کے پیشِ نظر بہر صورت طے کرنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ویکسین صحت مند لوگوں کو لگتی ہے اس لیے اس میں اضافی احتیاط ضروری ہے۔ اگر کوئی شدید بیمار مریض کسی تجرباتی دوا کے مضر اثرات کا شکار ہو جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ تو ویسے بھی موت کے قریب تھا، اس کے علاج کے لیے ہر خطرہ مول لیا جا سکتا تھا، لیکن صحت مند شخص کو غلط دوا دے کر اسے بیمار کر دینا بالکل الگ معاملہ ہے۔ 

دوسری بات یہ ہے کہ اگر کرونا وائرس کی ویکسین تیار ہو گئی تو ممکنہ طور پر اسے کروڑوں بلکہ شاید اربوں لوگوں کو دیا جائے۔ اگر ان کی ایک معمولی شرح کو بھی مضر اثرات کا سامنا کرنا پڑا تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سائنس دان ہر ممکن احتیاط سے کام لے رہے ہیں۔ 

ویکسین ہوتی کیا ہے؟

پہلے تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ویکسین خود جراثیم کے خلاف اثرانداز نہیں ہوتی بلکہ جسم کے مدافعتی نظام کو جراثیم کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتی ہے۔ وہ اس طرح کہ عام طور پر جب جسم پر کسی وائرس کا حملہ ہو جائے تو جسم اس کے خلاف حرکت میں آ جاتا ہے، لیکن اس عمل میں اتنی دیر لگتی ہے کہ وائرس کو اتنا موقع مل جاتا ہے کہ وہ جسم کو سخت بیمار کر دے یا ہلاک ہی کر ڈالے۔

ویکسین میں جراثیم کو غیر فعال کر کے، یا ان کے جسم کی مخصوص پروٹینز لے کر صحت مند انسان کے جسم میں داخل کی جاتی ہیں۔ جسم اسے خود پر حملہ سمجھ کر ویکسین کے خلاف دفاعی نظام کو متحرک کر دیتا ہے۔ اگر مستقبل میں کبھی بیماری پیدا کرنے والے جراثیم دھاوا بولیں تو جسم اس کے لیے پہلے سے تیار ہوتا ہے، اور جلد از جلد اس کا خاتمہ کر دیتا ہے۔

ویکسین بنتی کیسی ہے؟

ویکسین بنانے کے لیے سب سے پہلے تو وائرس کے کوئی ایسے حصے تلاش کیے جاتے ہیں جنہیں جب کسی صحت مند شخص کے جسم میں داخل کیا جائے تو جسم اس وائرس کے خلاف موثر مدافعت تیار کرلے۔

ماضی میں یہ ہوتا تھا کہ وائرس ہی کو اتنا غیر فعال بنا کر جسم میں داخل کر دیا جاتا تھا کہ وہ بیماری پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتا تھا مگر جسم کے مدافعتی نظام کو متحرک کر دیتا تھا۔ لیکن اب طبی سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ اب پورے وائرس کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وائرس کے جسم کے اندر سے چند مخصوص پروٹینز ہی نکال کر انہیں بطور ویکسین استعمال کیا جا سکتا ہے۔

اچھی بات یہ ہے کہ چینی سائنس دانوں نے برق رفتاری سے کام کرتے ہوئے کرونا وائرس کے جینیاتی مواد (آر این اے) کا تمام ڈیٹا دس جنوری ہی کو انٹرنیٹ پر نشر کر دیا تھا، جس کی مدد سے دنیا کی کوئی بھی لیبارٹری بغیر وائرس کے ویکسین کی تیاری شروع کر سکتی ہے۔

لیکن یہاں ایک بات غور طلب یہ ہے کہ آج تک تمام ویکسینیں اصل وائرس ہی سے بنتی چلی آئی ہیں اور یہ پہلا موقع ہو گا کہ جینیاتی مواد کی مدد سے ویکسین تیار کی جائے۔ صاف ظاہر ہے کہ جس راستے پر آپ پہلے کبھی نہیں چلے، اس پر ٹھوکر لگنے کا احتمال زیادہ ہوتا ہے۔

ویکسین بن گئی، اس کے بعد؟

جب کوئی ویکسین بن جائے تو سب سے پہلے اس کا تجربہ جانوروں پر کیا جاتا ہے، لیکن ایسا جانور ڈھونڈنا آسان نہیں جس پر یہی وائرس اثرانداز ہو کر اسے بیمار کر سکتا ہو، کیوں کہ ہر جانور کی بیماریاں الگ ہوتی ہیں۔

ایک طریقہ یہ ہے کہ چوہوں کے جینیاتی نظام میں اس طرح کی تبدیلیاں پیدا کی جائیں کہ وہ کرونا وائرس سے متاثر ہو سکیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے چوہے تیار کرنا بھی وقت طلب عمل ہے۔

چوہے تیار ہو گئے، اب اگلا مرحلہ انہیں پہلے ویکسین لگا کر پھر ان کے جسم میں کرونا وائرس داخل کر کے یہ دیکھنا ہے کہ آیا مدافعتی نظام حرکت میں آ کر وائرس کو ختم کرتا ہے یا نہیں۔

پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ اس کے مضر اثرات کیا ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ فائدے کی بجائے نقصان زیادہ ہو رہا ہے؟

اس مرحلے سے گزرنے کے بعد اگلا قدم انسانوں میں تجربے کا ہے۔ سب سے پہلے صحت مند انسانوں کو ویکسین دی جاتی ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ ان پر کیا اثر ہو رہا ہے۔

ویکسین دینے کے بعد کئی ہفتوں تک ان رضاکاروں کا متواتر معائنہ اور نگرانی ضروری ہے، کیوں کہ بعض دفعہ کسی دوا کا اثر فوری طور پر نہیں بلکہ کچھ عرصے کے بعد ظاہر ہوتا ہے۔ اس عمل میں جلدی نہیں کی جا سکتی۔

اس مرحلے کو فیز 1 کہتے ہیں۔ عام طور پر اس میں چند درجن صحت مند افراد پر تجربہ کیا جاتا ہے اور یہ دیکھنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دوا کی موثر خوراک کتنی ہو سکتی ہے اور کتنی خوراک خطرے کی حدوں کو چھونے لگتی ہے۔

اگر سب کچھ ٹھیک ٹھاک رہا تو پھر فیز 2 شروع ہو جاتا ہے، جس میں یہی تجربہ بڑھا کر سینکڑوں رضاکاروں پر کیا جاتا ہے اور انہیں کڑی نگرانی میں رکھ کر دیکھا جاتا ہے کہ مثبت اور منفی اثرات کیا ہیں اور ان کی نوعیت و شدت کیا ہے۔ 

اگر یہ مرحلہ بھی مسائل سے پاک رہا تو سب سے اہم فیز 3 کا آغاز کیا جاتا ہے جس میں ہزاروں رضاکار حصہ لیتے ہیں۔ اس مرحلے میں مختلف عمر، نسل اور جنس کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ نصف لوگوں کو نقلی دوا (placebo) دی جاتی ہے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ واقعی دوا موثر ہے۔ 

اوپر بیان کردہ تینوں مراحل میں کہیں بھی کوئی مسئلہ پیش آیا، دوا کا فائدہ توقع سے کم رہا یا اس کا کوئی مضر ذیلی اثر نکل آیا تو تمام کیے کرائے پر پانی پھر جاتا ہے اور سارا عمل نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا ہے۔

قدم قدم پر مشکلات

یہاں یہ مشکل آڑے آتی ہے کہ وہ صحت مند رضاکار کہاں سے ڈھونڈے جائیں جنہیں نقلی دوا دی جائے کیوں کہ ہر کوئی چاہے گا کہ اسے اصل ویکسین ہی ملے کہ کہیں وہ بیماری میں مبتلا نہ ہو جائے۔

اس مقصد کے لیے لوگوں کو وائرس سے الگ تھلگ رکھ کر مختلف کمپیوٹر ماڈل استعمال کیے جاتے ہیں اور ان کی مدد سے تخمینہ لگایا جاتا ہے کہ اگر وہ بیماری میں مبتلا ہوتے تو کا جسم کیا ردِعمل دکھاتا ہے۔

جب یہ پلِ صراط بھی عبور ہو جائے تب بھی ویکسین فوری طور پر بازار میں نہیں لائی جا سکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجربہ گاہ میں چند سو یا چند ہزار لوگوں کے لیے ویکسین تیار کرنا اور بات ہے اور کروڑوں لوگوں کے لیے دوا بنانا، اسے پیک کرنا، پھر دنیا کے مختلف خطوں میں اس کی بروقت اور محفوظ ترسیل الگ معاملہ ہے۔

جب تک ویکسین نہیں بنتی اس وقت تک آپ مندرجہ ذیل تدابیر اختیار کرکے خود کو محفوظ رکھ سکتے ہیں:

  • ہاتھ بار بار صابن اور پانی سے خوب مل مل کر کم از کم 20 سیکنڈ تک دھوئیں، خاص طور پر گھر واپس آنے کے بعد۔
  • گھر سے باہر اپنے پاس الکوحل والا سینیٹائزر رکھیں اور چیزوں کو چھونے کے بعد اس سے ہاتھ صاف کریں۔
  • بلاوجہ چہرے کو چھونے سے گریز کریں۔
  • لوگوں سے میل جول کم کر دیں، خاص طور پر وہ لوگ جو زکام جیسی علامات کا شکار ہوں۔
whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت