کرونا وائرس کے خوف میں نماز جمعہ

اس مرتبہ نماز جمعہ کی ادائیگی سے شاید میں نے اور دیگر نمازیوں نے فرض تو ادا کر لیا لیکن اللہ کی بجائے کرونا وائرس کا خوف غالب رہا۔ کیا میری اور مجھ جیسے اوروں کی یہ نماز قبول ہوئی؟

اپنی اور دوسروں کی جان بچانے کے لیے چند دن نماز گھر میں ہی پڑھ لی جائے تو اس میں ایمان کی مضبوطی دکھانے کی کیا نمائش؟ (اے ایف پی)

اسلام میں نماز کی ادائیگی پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، یہاں تک کہ حالتِ جنگ میں بھی اس کی ادائیگی کا حکم ہے۔ اگر میری معلومات درست ہیں تو دوران جنگ جو نماز پڑھی جاتی ہے تو اسے 'صلوٰۃ خوف' کہتے ہیں، جس میں موجود آدھے لوگ ایک خاص ترکیب سے دو وقفوں میں نماز ادا کرتے ہیں۔

مجھے جنگ کے دوران تو کسی ایسی کیفیت میں نماز پڑھنے کا موقع نہیں ملا لیکن پشاور میں اس مرتبہ نماز جمعہ کسی صلوٰۃ خوف سے کم نہیں تھی۔ زمانہ قدیم میں جب دوبدو لڑائی ہوا کرتی تو نماز میں پہلی رکعت کے دوران جب آدھے جنگجو نماز ادا کر رہے ہوتے تھے تو باقی آدھے جنگجو اس وقت لڑائی میں مصروف ہوتے تھے۔

اس لیے نماز پڑھنے والوں کو اطمینان رہتا تھا کہ دورانِ نماز ان پر حملہ نہیں ہوگا لیکن نماز جمعہ میں اس قسم کا اطمینان رتی برابر بھی نہیں تھا بلکہ صبح سے لے کر مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے جانے تک ایسا خوف طاری تھا جو اس سے پہلے کبھی زندگی میں دیکھا نہ محسوس کیا۔

پشاور میں ایک رات قبل ہی فون پر ہونے والی گپ شپ میں اس موضوع پر گرما گرم بحث ہو رہی تھی کہ نماز جمعہ ادا کرنے مساجد جایا جائے کہ نہیں؟ خیبر پختونخوا میں جیسے دیگر معاملات میں کوئی فرق نہیں آیا ویسے ہی یہاں کے باسیوں کی ایمان کی ’پختگی‘ بھی جوں کی توں ہے۔

اس لیے ہم بھی پہلے اس سوچ میں جتے رہے کہ نماز جمعہ ادا کرنے مسجد جائیں کہ نہیں۔ اس تذبذب کی وجہ یہ تھی کہ جمعرات کی شب صوبائی حکومت نے شہر میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا تھا۔

اس تذبذب کو صبح ہونے والی بارش نے اور بھی بڑھا دیا۔ پشاور میں بارش ایسی زور دار تھی کہ کیا کہیے۔ سوچا شاید قدرت کی طرف سے بھی گرین سگنل آ رہا ہے کہ نماز جمعہ گھر میں ہی ادا کی جائے لیکن یہ خیال اس وقت ختم ہو گیا جب بارش عین وقتِ نماز سے پہلے اچانک یوں تھمی کہ جیسے ہوئی ہی نہ ہو۔

بارش کے اس رکنے پر ہمارے ایمان نے دوبارہ کروٹ لی اور چند منٹوں میں نہا دھو کر مسجد کے لیے نکل پڑے۔ پشاور کی مساجد عام طور پر نماز جمعہ کے اوقات میں نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی ہے لیکن کل مسجد میں گنے چنے نمازی دکھائی دے رہے تھے۔

چند لوگ مسجد کے باہر کھڑے ایسا تاثر دے رہے تھے کہ جیسے بارش رکنے پر کرونا وائرس کی صورت حال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہی میں ایک ہمسایہ دکھائی دیا جس نے میرے استفسار پر بتایا کہ نماز پڑھنے آیا ہوں لیکن چونکہ مسجد کے اندر social distancing (فاصلاتی دوری) کا خیال نہیں رکھا جا رہا اس لیے وہ باہر کھڑے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا اصرار تھا کہ خطبے کی اذان پر ہی مسجد میں داخل ہوں گے۔

ترکیب اچھی تھی تو ہم نے سوچا کہ کیوں نہ یہ سہولت حاصل کی جائے، لیکن یاد آیا کہ ابھی فرض سے قبل کی سنت نماز ادا نہیں کی، تو گویا ایسا لگا کہ جیسے کوئی کان میں کہہ رہا ہو کہ آپ کو یہ سہولت سردست مہیا نہیں کی جاسکتی اس لیے مسجد میں داخل ہو ہی جائیں۔

یہ بات ضبط تحریر میں لانے پر اپنے ایمان کی امان پاؤں تو یقین کیجیے کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت مجھے پہلی بار خوف محسوس ہوا۔ تین دن پہلے وہاں موجود تمام قالین اٹھا لیے گئے تھے اور فرش بھی دھلا ہوا دکھائی دے رہا تھا جس سے دل کو کچھ ڈھارس بندھی کہ مسجد میں کرونا کش اقدامات ہوئے ہیں۔

وہاں موجود بعض نمازی جن کا شاید ایمان زیادہ مضبوط تھا، واقعی فاصلاتی دوری کو خاطر میں نہیں لا رہے تھے لیکن جو میرے جیسے کمزور ایمان والے تھے، وہ نہ صرف اپنی جائے نمازیں ساتھ لائے ہوئے تھے بلکہ دستانے اور ماسک کے حفاظتی حصار سے بھی لیس تھے۔

ان حالات میں یہ خیال بھی آیا کہ سنت نماز گھر میں ادا کر کے آتے تو کچھ اور دیر سڑک پر رہ کر فاصلاتی دوری کا سہارا لے لیتے۔ بہرحال مسجد کے صحن میں یہ سوچ کر سنت نماز پڑھ لی کہ یہاں غیرمعیاری ہی سہی لیکن فاصلاتی دوری میسر ہے۔ سنتوں کے بعد جب نمازیوں کے چہروں کا جائزہ لیا تو مسجد کے صحن میں بعض ایسے ’شیر دل‘ نمازی بھی دکھائی دیے جو عام طور پر پہلی صف میں کھڑا ہونا اپنا طرہ امتیاز سمجھتے ہیں۔

مسجد میں میرے جیسے جتنے بھی ڈرپوک تھے ان کے چہروں کی اڑی ہوئی رنگت بھی نمایاں تھی اور ساتھ ہی بےچینی سے نماز جمعہ کا خطبہ سننے کی بجائے وہ ایک دوسرے کو یوں دیکھ رہے تھے جیسے کرونا وائرس کا جرثومہ تلاش کر رہے ہوں۔

بیشتر نمازیوں کی گردنیں بار بار یوں گھوم رہی تھیں جیسے کسی بڑے لیڈر کا باڈی گارڈ اپنے باس کے پیچھے کھڑا گردن اور آنکھوں کی پتلیاں گھماتا ہے۔ آخر خطبہ سماعت ہوا اور فرض کی ادائیگی کے لیے صفیں بننے کا مرحلہ آیا تو مجھ سمیت تمام شاکی نمازی مسجد کے ہال میں جانے سے گریزاں تھے۔

مسجد کے باہر جو لوگ فاصلاتی دوری کو انجوائے کر رہے تھے وہ بھی اندر آگئے اور کوئی ایسی جگہ تلاش کرنے لگے کہ جہاں وائرس نہ ہو یا اگر ہو تو سو رہا ہو۔

مسجد میں یہ موقع بھی دیدنی تھا کہ جو نمازی اپنی جائے نماز ساتھ لائے ہوئے تھے وہ یہ احتیاط کر اور کروا رہے تھے کہ دوسرا نمازی ان کی جائے نماز پر نہ تو پاؤں رکھے اور نہ ہی اسے چھو نے کی جسارت کرے۔ اس موقعے پر ہال کے اندر موجود نمازی صحن میں موجود افراد کو اندر بلاتے رہے جس پر بعض لوگ تو اندر چلے گئے لیکن مجھ جیسے ڈرپوک نے یہ چالاکی کی کہ فوراً نیت باندہ لی۔

اللہ مجھے معاف کر دے دو فرض کی ادائیگی کے دوران چار سجدوں کا مرحلہ خوف سے لبریز تھا، جس کے دوران 'سبحان ربی العلی' تین بار کہنے کی بجائے ساری توجہ اس بات پر تھی کہ حالت سجدہ میں سانس لینے سے گریز کیا جائے۔

اس حالت خوف میں نماز تمام ہوئی تو آخری منظر نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ابھی دوسرا سلام امام صاحب نے مکمل بھی نہیں کیا تھا کہ خوف کے مارے کئی نمازی اس تیزی سے اٹھے اور دروازے کی طرف لپکے جیسے ایک سیکنڈ مزید رکے تو وائرس چپک جائے گا۔

اس جلدی کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسجد کے دونوں دروازوں پر جھمگھٹا بن گیا اور فاصلاتی دوری کی دھجیاں اڑا دی گئیں۔ میں نے نمازیوں کے نکلنے کا انتظار کیا جس میں کوئی زیادہ وقت نہیں لگا کیونکہ ہر ایک کو باہر نکلنے کی جلدی تھی۔

مسجد سے باہر جانے والے راستے خالی ہو گئے تو میں بھی فاصلاتی دوری کے پروٹوکول میں باہر نکل آیا اور گھر کی طرف جاتے ہوئے سوچنے لگا کہ بطور عامل صحافی لگ بھگ دو دہائیوں تک دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران خوف کی یہ فضا نہیں دیکھی جس میں آج پشاور اور ہر پشاوری مبتلا تھا۔

حالانکہ یہ پشاوری وہ بہادر ہیں جو صبح کو بیسیوں افراد کی ہلاکت دیکھ کر شام کو اسی طرح بازاروں میں موجود ہوا کرتے تھے۔ آج پشاوری خوف میں مبتلا تھے۔ مسجد میں جب دو، تین نمازیوں نے کھانسا تو پوری مسجد ان کو عجیب عجیب نظروں سے گھورنے لگی۔

نماز جمعہ کی اس ادائیگی سے شاید میں نے اور دیگر نمازیوں نے فرض تو ادا کر لیا لیکن اللہ کی بجائے کرونا وائرس کا خوف غالب رہا۔ کیا میری اور مجھ جیسے اوروں کی یہ نماز قبول ہوئی؟

میں ایک نتیجے پر پہنچا ہوں کہ جان بھی تو اللہ کی دی ہوئی ہے۔ اپنی اور دوسروں کی جان بچانے کے لیے چند دن نماز گھر میں ہی پڑھ لی جائے تو اس میں ایمان کی مضبوطی دکھانے کی کیا نمائش؟ بہترین عمل یہ ہے کہ اپنے اور دوسروں کے لیے گھر پر ہی رہا جائے اور فاصلاتی دوری کو اپنایا جائے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ