کٹ اور کاپی پیسٹ کرنے والے کبھی رائٹر یا صحافی نہیں بن سکتے

جب سے سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا ہے تب سے صحافیوں کی قدر کم ہوگئی ہے اور ہر وہ بندہ جو سوشل میڈیا کا اکاؤنٹ رکھتا ہے وہ صحافی اور لکھاری بن گیا ہے۔

ان کرونا وائرس کی وبا کے دنوں میں جب سب لوگ گھروں میں مقید ہوگئے ہیں تو لوگوں کے پاس کرنے کو کوئی اور کام ہی نہیں تھا تو انہوں نے بس بے جا شیئرنگ ہی کرنی تھی۔ (پکسابے)

جب سے سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا ہے تب سے صحافیوں کی قدر کم ہوگئی ہے اور ہر وہ بندہ جو سوشل میڈیا کا اکاؤنٹ رکھتا ہے وہ صحافی اور لکھاری بن گیا ہے۔ بلکہ اس کرونا (کورونا) وائرس نے تو ہر کسی کو سوشل ورکر اور صحافی بھی بنا دیا ہے۔

مگر ہم یہاں پر صحافت کرنے والوں کے بارے میں بات کریں گے جو خود رو پودوں کی طرح ہر جگہ اُگ آئے ہیں۔ جو پہلے بھی زیادہ تھے مگر اتنے زیادہ نہیں تھے۔

پہلے اس شعبے کے لوگوں سے ہر کوئی ڈرتا بھی تھا۔ سب انہیں عزت سے بلاتے تھے۔ اپنی آواز کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے صحافی ہی واحد ذریعہ ہوتے تھے۔ لوگ ڈرا کرتے تھے کہ ایسا نہ ہو اخبار میں میرے خلاف کوئی خبر چھپ جائے۔ مگر پھر وقت بدلا سوشل میڈیا نے انٹدی دی اور ہر کوئی سیٹیزن جرنلسٹ یعنی شہری صحافی بن گیا۔

ٹوئٹر پر صحافیوں کو فالو کیا۔ کچھ نیوز کے پیجز فالو کیے اور پھر بن گئے صحافی۔ ہر چیز شئیر ہوتی رہی۔ یعنی پلمبر بھی صحافی بن گیا تو پٹرولیم انجینیئر نے بھی صحافت کا لبادہ اوڑھ لیا۔ ڈاکٹر نے بھی اس میدان میں پنجے گاڑھے تو ترکھان اور مزدور نے بھی فارغ وقت میں چیزوں کو شیئر کرنا شروع کردیا۔ یعنی کہ وہ صحافی کہیں غائب ہوگئے جنہوں نے اس کی تعلیم حاصل کی تھی۔

پہلے اگر صحافت کی ڈگری والے نہیں تھے مگر اب تو ماشااللہ سے ہر ادارے میں ڈگری یافتہ صحافی ہیں۔ اگر اُن کی لکھی ہوئی چیزوں کو بغیر کریڈٹ کے آپ آگے شیئر کریں گے تو بندے کو غصہ تو آئے گا۔ بے شک معلومات کو شیئر کرنا آپ کا حق ہے مگر بغیر تحقیق کے کسی چیز کو شیئر کرنا کتنا نقصان پیدا کرتا ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کرونا وائرس کی وبا کے دنوں میں جب سب لوگ گھروں میں مقید ہوگئے ہیں تو لوگوں کے پاس کرنے کو کوئی اور کام ہی نہیں تھا تو انہوں نے بس بے جا شیئرنگ ہی کرنی تھی۔ جو سازشی تھیوریاں اس وقت پیدا ہوئیں ہیں اُن کو پھیلانے میں ان نام نہاد صحافیوں نے زیادہ کام کیا۔ غلط معلومات پھیلائیں۔ چین، امریکہ، دجال، سپر پاور بہت سی کہانیاں میدان میں آئیں۔

ہر علاقےمیں کرونا وائرس کا کیس سامنے آیا۔ جس نے کوئی بات سنی سوشل میڈیا پر ڈال دی اور وہ چیز وائرل ہوتی گئی۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ ہمارے علاقے میں ایسے ہی ایک سنی سنائی بات کو ایک انجانے اناڑی سوشل میڈیا کے صحافی نے اخبار کی زینت بنایا جس کے بعد اُس بندے کی زندگی اجیرن ہوگئی۔ جب نیوز چھپی کہ وہ کرونا کا مریض ہے۔ پورے گاؤں میں خوف وہراس کی فضا تھی۔ جب رزلٹ نیگیٹو آیا تو سب کی جان میں جان آئی۔

اسی طرح یہ خبر چلی کہ کرونا وائرس قہوہ پینے سے ٹھیک ہو جاتا ہے۔ جس کے پاس یہ نیوز گئی اس نے اپنے علاقے کا نام ڈال کر آگے فارورڈ کر دیا۔ جس بندے نے ویڈیو میں یہ بات کی تھی اُس نے بعد میں کہہ دیا کہ یہ جھوٹ تھا مگر ملک بھر میں لوگوں نے کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے قہوے کے تھرماس بھر کر پی لیے تھے۔

ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے حوالے سے پیغام بھی شیئر ہوتا گیا کہ رات 12 بجے کے بعد کرونا وائرس کے حوالے سے معلومات شیئر نہ کریں ورنہ حکومت آپ کو گرفتار کرسکتی ہے۔ اس طرح ایک بندے نے ایک ہہترین کہانی لکھی جس کے شروع میں علاقے کا نام تبدیل کر کے اپنے نام کے ساتھ سوشل میڈیا کے اناڑی اور شہرت کے بھوکے لوگوں نے اپنے اپنے ناموں کے ساتھ شیئر کر کے مفت کی واہ واہ بٹوری۔

کٹ اور کاپی پیسٹ والے کبھی بھی رائٹر یا صحافی نہیں بن سکتے کیونکہ جن کا کام اُن ہی کو ساجھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ