کرونا وائرس سے پریشان شہریوں کے لیے مفت آن لائن کونسلنگ

شہریوں میں کرونا وائرس کے بڑھتے خوف کو دیکھتے ہوئے کوئٹہ میں ڈاکٹروں اور سماجی تنظیموں نے مل کر ایک آن لائن سروس شروع کی ہے تاکہ ایسے خوفزدہ لوگوں کی کونسلنگ کی جائے۔

(اے ایف پی)

'معمول کی سہ پہر تھی اور میں ہر روز کی طرح اپنے مریضوں سے فون پر رابطے میں تھی کہ ایک شخص کے سوال نے مجھے حیرت زدہ کر دیا۔ انہوں نے پوچھا: کیا دنیا ختم ہونے والی ہے؟'

یہ کہنا تھا ماہر نفسیات ڈاکٹر ماہم مبین کا جو کوئٹہ میں پرکٹس کرتی ہیں اور کرونا (کورونا) وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لگے ہوئے لاک ڈاؤن کے باعث شہریوں کی کونسلنگ گھر سے ہی فون کے ذریعے کر رہی ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک کال نہیں تھی بلکہ ایسے متعدد افراد نے  کال کرکے یہی مسئلہ بیان کیا کہ کرونا وائرس کی وبا کے بڑھنے کے باعث انہیں ایسے خیالات آرہے ہیں کہ جیسے دنیا ختم ہونے والی ہے۔

ڈاکٹر ماہم نے کہا کہ کرونا وائرس بذات خود ایک وبا ہے جس کو کسی بھی وقت ختم ہونا ہے لیکن اس نے ابتدا میں ہی بعض لوگوں کے اعصابی نظام پر ایسے نقوش چھوڑے ہں  کہ زندگی بھر ایسے خیالات ان کے ذہنوں میں رہیں گے۔

شہریوں میں کرونا وائرس کے بڑھتے خوف کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹروں اور سماجی تنظیموں نے مل کر بلوچستان سائیکالوجسٹ ایسوسی ایشن  کے نام سے ایک آن لائن سروس شروع کی ہے تاکہ ایسے خوفزدہ لوگوں کی کونسلنگ کی جائے۔

ڈاکٹر ماہم مبین بھی اسی ٹیم کا حصہ ہیں اور وہ بطور ماہر نفسیات لوگوں کا علاج کررہی ہیں۔

وہ سمجھتی ہیں کہ کرونا وائرس کا خوف دنیا بھر میں لوگوں کے اعصاب پر بھی چھایا ہوا ہے۔ ان کے بقول، لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس وبا نے جس طرح دنیا کو لپیٹ میں لے لیا ہے، اور اس کا ابھی کوئی علاج بھی نہیں ہے، تو آگے کیا ہوگا؟

ماہرین نفسیات اور سماجی کارکنوں  کی اس تنظیم سے لوگ واٹس ایپ گروپس اور  فیس بک کے ذریعے آن لائن رابطہ کرتے ہیں اور انہیں کرونا وائرس کے باعث درپیش ذہنی دباؤ سے آگاہ کرتے ہیں جس پر ماہرین ان کا کونسلنگ کے ذریعے علاج کررہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر ماہم کے مطابق چونکہ لاک ڈاؤن کے باعث لوگ ہر وقت گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں اور روزمرہ کے معمولات متاثر ہونے کے باعث پریشان ہیں، تو ان کے ذہنوں میں سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کیا انہیں اس وبا سے نجات ملے گی یا نہیں۔

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ زیادہ تر چڑ چڑے پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تعداد مردوں کی ہے جو عام طور پر  اپنے کام یا تعلیم  کے سلسلے میں گھروں سے باہر رہتے ہیں اور اب گھر پر رہنے کو مجبور ہیں، اور بڑی تعداد نوجوان کی بھی ہے جو اپنی تعلیم کے حوالے سے بے حد فکر مند ہیں۔

ڈاکٹر ماہم کے بقول، جب ایسے افراد ان سے رابطہ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف انہیں کرونا وائرس کے خطرناک ہونے اور گھروں میں رہنے کی اہمیت سے آگاہ کرتی ہیں بلکہ انہ کی ذہنی کونسلنگ بھی کرتی ہیں کہ دباؤ سے کیسے نمٹا جائے۔

ڈاکٹر ماہم سمجھتی ہیں کہ کرونا وائرس کے خوف سے ذہنی مریض بننے کی وجہ ٹی وی چینلز اور سماجی رابطوں  کی ویب سائٹس اور ابلاغ کے دیگر ذرائع ہیں۔  

ماہرین نفسیات کا شہریوں کو مشورہ ہے کہ انہیں صرف اتنی ہی معلومات لینی چاہیے جتنی ان کو ضرورت ہے اور کرونا وائرس کے بارے میں زیادہ خبروں سے خود کو دور رکھنا چاہیے۔

ڈاکٹر ماہم نے کہا: ’پہلے لوگ زیادہ تر سوشل میڈیا پر معلوماتی یا مزاحیہ ویڈیوز دیکھ کر لطف اندوز ہوتے تھے مگر اب سوشل میڈیا پھر بھی موجود مواد کرونا وائرس کی وبا کے حوالے سے موجود ہے جو انہیں تذبذب کا شکار کررہا ہے۔‘

تنظیم کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سائیکالوجسٹ ایسوسی ایشن کے مرکزی عہدیدار بہرام لہڑی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس کی ضرورت اس وجہ سے محسوس ہوئی کہ یہ وبا شہریوں کے اعصاب کو متاثر کررہی ہے اور نفسیات کے ڈاکٹروں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کو اس سے نکالیں۔

ان کا کہنا تھا: ’ہماری تنظیم نے عوام کو اس مشکل گھڑی سے نکالنے کے لیے رضاکارانہ فری آن لائن کونسلنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔‘

بہرام لہڑی کے مطابق عوام گھر بیٹھے ان کے ماہرین نفسیات سے صبح  سے شام تک کال کر کے اپنے نفسیاتی مسائل پر آگاہی لے سکتے ہیں جہاں ان کا باقاعدہ علاج بھی ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی صحت