'بورس جانسن ٹرمپ کے ساتھ آزادی صحافت کا معاملہ اٹھائیں'

اینڈریو بن کومب ایک تجربہ کار صحافی ہیں جنہیں امریکی پولیس کی جانب سے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگا کر قیدیوں کے سرخ لباس میں چھ گھنٹوں تک پولیس کے قید خانے میں رکھا گیا۔

(کنگ کاؤنٹی)

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ امریکہ میں دی انڈپینڈنٹ کے نمائندے اینڈریو بن کومب کی واشنگٹن کے شہر سیاٹیل میں بلیک لائیوز میٹرز کے سلسلے میں ہونے والے اجتجاج کے دوران گرفتاری کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ آزادی صحافت کے معاملے کے طور پر اٹھائیں۔

مذکورفرد ایک تجربہ کار صحافی ہیں جنہیں ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگا کر قیدیوں کے سرخ لباس میں چھ گھنٹوں تک پولیس کے قید خانے میں رکھا گیا۔ برطانوی وزات خارجہ کی جانب سے اس واقعہ کو 'بہت تشویش ناک' قرار دیا گیا ہے۔

اینڈریو بن کومب احتجاج کی رپورٹنگ کے دوران 'منتشر نہ ہونے' کے الزام کا سامنا کر رہے ہیں جس کی زیادہ سے زیادہ سزا 364 دن کی قید یا پانچ ہزار ڈالر جرمانہ ہے۔

باوجود اس کے کہ وہ اپنی گرفتاری کے وقت اکیلے اور پولیس کی جانب سے ٹیپ لگا کر مختص کی گئی جگہ کے درست سمت موجود تھے بلکہ گرفتاری کے وقت انہوں نے اہلکاروں کو اپنا صحافتی کارڈ بھی دکھایا تھا۔

ایڈیٹرز کی تنظیم سوسائٹی آف ایڈیٹرز نے برطانوی وزیر اعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ امریکی پولیس کی جانب سے بلیک لائیوز میٹر کے احتجاج کے دوران صحافیوں کو گرفتار کرنے کے سلسلے پر اظہار تشویش کریں۔

بی بی سی میں طویل عرصے تک ورلڈ افیئرز کے ایڈیٹر رہنے والے جون سمپسن بن کومب پر گزرنے والے حالات جو کہ دی انڈپینڈنٹ میں جمعے کو شائع ہوئے، کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ' یہ بہت افسوس ناک ہے'۔

 

سمپسن کہتے ہیں 'یہ وہ امریکہ نہیں ہے جس سے میں 1963 میں اپنے پہلے دورے سے محبت کرتا تھا۔'

بی بی سی شمالی امریکہ کے ایڈیٹر جون سوپیل کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ 'رونگٹے کھڑے کر دینے والا، پریشان اور تکلیف دہ' ہے۔

 جون سوپیل کہتے ہیں 'میں بقائم ہوش یقین نہیں کر سکتا کہ ایسا اس ملک میں ہو رہا ہے جو گذشتہ چھ سال سے میرا گھر ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا ہی ہے۔'

سوسائٹی آف ایڈیٹرز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر این مرے نے وزیر اعظم بورس جانسن سے مطالبہ کیا ہے کہہ آزادی صحافت اور صحافیوں کے تحفظ کا معاملے پر براہ راست صدر ٹرمپ سے بات کریں۔

ان کا کہنا ہے کہ سیاٹیل والے واقعے کے بعد ایک اور برطانوی صحافی ایڈم گرے کو بھی گرفتار کرنے سے قبل پولیس کی جانب سے زمین پر پھینکا گیا، انہیں قید کر کے ہتھکڑی لگائی گئی جس کی وجہ رواں سال کے آغاز میں نیو یارک سٹی میں ہونے والے مظاہروں کی تصاویر بنانا تھی۔

 این مرے کہتے ہیں 'سوسائٹی آف ایڈیٹرز کا ماننا ہے کہ صرف لفظ کافی نہیں۔ یہ حکومتوں کے لیے آسان ہے کہ وہ آزادی صحافت اور صحافیون کے تحفظ کے لیے اچھے اچھے الفاظ کہیں لیکن اعمال الفاظ سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں۔ صحافیوں کو اپنا اہم ترین فریضہ یعنی جمہوریت کا دفاع سرانجام دینے کے لیے حفاظت چاہیے چاہے وہ کہیں بھی کام کر رہے ہوں۔ اینڈریو بن کومب کے معاملے میں برطانوی حکومت کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ جب ایک صحافی اپنا کام کر رہا ہے تو اسے لبرل ڈیموکریسی کے تحت قانونی تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس کے علاوہ کچھ بھی کرنا ان برادریوں اور معاشرے کو دھوکہ دینا ہو گا جن میں وہ کام کر رہے ہیں۔'

دی انڈپینڈنٹ کے ایڈیٹر کرسٹین بروٹن کا کہنا ہے کہ یہ ضروری ہے کہ دنیا بھر میں موجود جمہوری رہنما آزادانہ صحافت کے لیے غیر مشروط طور پر کھڑے ہوں۔ بن کومبی کی گرفتاری اور ان کے ساتھ کیے جانے والا ناروا سلوک کی مذمت کی جانی چاہیے۔

ان کا کہنا ہے 'بطور خبر رساں ادارے دی انڈپینڈنٹ کے نمائندے ان ملکوں میں مستقل طور پر موجود ہیں جن کا ریکارڈ آزادی صحافت کے حوالے سے اچھا نہیں ہے۔ ہم اپنے رپورٹرز کو تنازعوں کے شکار علاقوں میں بھی متواتر بھیجتے ہیں۔ تو جب آپ کا فون بجے اور کہا جائے کہ ایک صحافی کو گرفتار کر لیا گیا ہے آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسا امریکہ میں مقیم نمائندے کے لیے کہا جا رہا ہے۔ اینڈریو بن کومب ایک تجربہ کار اور باعزت صحافی ہیں۔ جیسے وہ اپنے آرٹیکل میں لکھتے ہیں کہ ایک صحافی کا کام پھیلانا نہیں پیش کرنا ہے۔'

ڈاؤننگ سٹریٹ کے ترجمان نے بن کومب کے کیس کے حوالے سے بیان تو جاری نہیں کیا لیکن صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ترجمان کا کہنا تھا کہ 'وزیر اعظم کئی مواقع پر اس بات کو واضح کر چکے ہیں کہ وہ آزادی صحافت پر یقین رکھتے ہیں۔'

برطانوی سفارت خانے کے عملے نے اینڈریو بن کومب کو گرفتاری کے دن مدد فراہم کی تھی اور یہ مانا جا رہا ہے کہ واشنگٹن میں موجود برطانوی سفارت خانے نے برطانوی صحافی کو پولیس کارروائی کا نشانہ بنائے جانے پر یہ معاملہ امریکی حکام کے ساتھ اٹھایا ہے۔

برطانوی وزارت دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 'ہم نے برطانوی شخص کو قونصلر رسائی فراہم کی جب انہیں سیاٹیل میں گرفتار کیا گیا اور ہم اس دوران مقامی انتظامیہ سے رابطے میں تھے۔'

ترجمان کا کہنا ہے کہ 'یہ گرفتاری بہت تشویش ناک ہے۔ دنیا بھر میں صحافیوں کو اپنا کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے اور وہ گرفتاری یا تشدد کے خطرے کے بغیر حکام سے سوال کر سکیں۔'

ایمنسٹی انٹرنیشنل امریکہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر فار ری سرچ جسٹن موزالا کا کہنا ہے کہ بن کومبی ان 60 صحافیوں میں تھے جنہیں رواں سال جورج فلائیڈ کی پولیس کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ہونے والے مظاہروں کی کوریج کرتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا۔

جسٹن موزالا کہتے ہیں کہ 'پرامن اجتماع کی آزادی کے حق کا تحفظ کرنے میں میڈیا کا ایک اہم کردار ہے لیکن اب خاص طور پر جب معاشرہ پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام افراد کے غیر قانونی قتل عام کے خلاف سٹرکوں پر نکل رہا ہے اور بیک وقت ایک بہت جلد منتقل ہونے والے وائرس کا بھی مقابلہ کر رہا ہے۔ میڈیا کا حق ہے کہ وہ ان مظاہروں میں جائے اور رپورٹ کرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فرض ہے کہ وہ اس میں رکاوٹ نہ ڈالیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو گذشہ دہ ماہ کے دوران جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہم نے دیکھی ہیں وہ تاریکی کو مزید بڑھائیں گی۔'

سابقہ لیبر رکن پارلیمنٹ رتھ سمیتھ جو کہ اب انڈیکس آن سینسر شپ کے چیف ایگزیکٹو ہیں کا کہنا ہے کہ 'صحافت اہم ہے۔ ہماری آزادی اہم ہے۔ یہ ایک شرمناک بات ہے اور ہم اینڈریو بن کومب کے ساتھ کھڑے ہیں۔

امریکہ میں غیر ملکی میڈیا نمائندوں کی اسوسی ایشن کے صدر تھانوس ڈیماڈیس نے بھی اپنی تنظیم کی جانب سے بن کومب سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ انہوں نے بن کومب کو 'پولیس کے اندھا دھند اور غیر منصفانہ تشدد ' کا متاثر قرار دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تھانوس ڈیماڈیس کہتے ہیں 'امریکہ میں صحافیوں کے خلاف تشدد اور بدسلوکی کی جڑیں میڈیا کے بارے میں صدر ٹرمپ کے منفی خیالات میں موجود ہیں جنہوں نے اس طریقے کو ایک الیکٹورل اور سیاسی حکمت عملی بنا لیا ہے۔ جب میڈیا اور صحافیوں کو ایک ملک کے رہنما کی جانب سے لفظوں سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے تو اس کا نتیجہ صحافیوں کے خلاف تشدد اور بدسلوکی کی صورت میں نکلتا ہے جو اس رہنما کے فیصلوں کو سڑکوں پر چیلینج کرتے ہیں۔'

سینئیر کالمسٹ پیٹر اوبورن کا کہنا ہے کہ 'ایک معقول برطانوی وزیر خارجہ اس بارے میں پرزور انداز میں شکایت کریں گے لیکن میں ڈومینک راب سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس معاملے میں بھی امریکہ کی مرضی پر چلیں گے جیسے انہوں نے گذشتہ اگست میں ہیری ڈن کی ہلاکت پر کیا تھا۔

لیبر پارٹی کے شیڈو کلچر سیکرٹری جو سٹیونز کا کہنا ہے کہ صحافتی نمائندے کے ساتھ جو کچھ امریکی پولیس نے کیا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ وزرا یہ ثابت کریں کہ حکومت صحافت اور آزادی صحافت کی حمایت کرتی ہے کے حوالے سے ان کے بیانات 'صرف الفاظ نہیں ہیں۔'

سٹیونز کے مطابق 'اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے اینڈریو بن کومب کی گرفتاری ٹرمپ کے امریکہ میں صحافیوں کے خلاف بڑھتی ہوئی کارروائیوں کا حصہ ہے۔آزادی صحافت کسی بھی جمہوریت کے درست انداز میں کام کرنے کا ایک امتحان ہے۔ گذشتہ سال وزارت خارجہ اور دولت مشترکہ کے دفتر پر آزادی صحافت کے حوالے سے چلائی جانے والی مہم پر تنقید ہوئی تھی جس کی وجہ لندن میں کی جانے والی ایک ہائی پروفائل کانفرنس تھی جبکہ حقیقت میں یہ مہم وسائل اور توجہ کی کمی کا شکار تھی۔ بن کومب کا معاملہ حکومت کو یہ ثابت کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے کہ میڈیا کی آزادی کا تحفظ اور دوسرے ممالک میں موجود برطانوی صحافیوں کے حقوق صرف لفظی اہمیت ہی نہیں رکھتے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ