بارکھان: انور جان کے قاتل کون پکڑے گا؟

پاکستان صحافیوں کے لیے روز اول سے ایک  خطرناک ملک رہا ہے مگر بلوچستان اس لیے  سب سے زیادہ  خطرناک ہے کہ یہاں صحافی اپنے  رسک پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

(سوشل میڈیا)

آج سے دو  دن قبل اسلام آباد سے 9 گھنٹے کے لیے  لاپتہ  صحافی مطیع اللہ جان   کے لیے جتنا ردعمل ملک بھر کے صحافی اور سول سوسائٹی  نے ظاہر کیا اُتنا ہی بلوچستان  کے صحافی ، سول سوسائٹی اور سیاسی جماعتوں نے بھی ظاہر کیا ۔

مگر اسی طبقے کے ایک اور بہادر صحافی جو بلوچستان کے کٹر قبائل نظام کے اندر رہ کر حق و سچائی کے لیے لکھتے رہے  اور اپنی پوری صحافتی زندگی میں اپنے قلم کو اپنے ضمیر کا پابند رکھ کر  مظلوم اور بے آواز لوگوں کے آواز بنے رہے، ان صحافی، انور جان کھیتران کو  ہمیشہ کے  لیے خاموش  کر دیا جاتا ہے۔

ان کے قتل کو 24 گھنٹے گزر چکے ہیں۔  اگر  یہی  جرات و ہمدردی ملک بھر کے صحافی ان کے لیے بھی دکھاتے تو قاتل بے نقاب نہ بھی ہوتے  کم از اکم ان کے قتل کی حکومتی سطح پر تحقیقات تو شروع ہوجاتیں۔  

یوں اگر دیکھا جائے تو پاکستان صحافیوں کے لیے روز اول سے ایک  خطرناک ملک رہا ہے مگر بلوچستان اس لیے  سب سے زیادہ  خطرناک ہے کہ یہاں صحافی اپنے  رسک پر رپورٹنگ کرتے ہیں۔

ان کے ساتھ جو کچھ ہوتا ہے، نہ میڈیا مالکان ان کی مدد کرتے ہیں اور نہ حکومتی سطح پر ان کے تحفظ کے لیے کوئی اقدامات کیے جاتے ہیں۔  

اب  تک ارشاد مستوئی کے قاتل قانون کے گرفت میں آئے اور نہ ہی  دوسروں کے۔

قبائلی علاقوں میں  یا تو  ضمیر فروش صحافی پیدا ہوتے ہیں یا  انور جان جیسے با ضمیر، جو خود  زندگی کے آخری دنوں تک اپنے قلم کی عظمت کو بلند کرنے میں اپنے پیشہ ورانہ اصولوں پہ قائم رہتے ہیں اور  ان کا جنازہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ  وہ عوام کی  حقیقی آواز  تھے۔

اس سلسلے میں بلوچستان گورنمنٹ کے ذمہ داران نے ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پر تو ہمدردی کا اظہار کیا مگر عملی طور پر شاید وہ بھی بے بس ہیں۔  

اس واقعے کے بعد میں نے اپنے  ایک دوست سے  اس سلسلے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک اس بارے میں کوئی سرکاری سطح پر کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔

اس نے ایک حیران کن بات یہ بتائی کہ پچھلے دو سال سے بارکھان میں نہ اسسٹنٹ کمشنر ہے اور نہ تحصیلدار ،  یہ پوسٹیں خالی پڑی ہیں۔  

اگر ایسا ہے تو  حکومت بلوچستان کی انوار جان کے  لیے ٹوئٹر پہ ہمدردی محض مگر مچھ کے آنسو ہوسکتی ہے۔

انور جان کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے ملک بھر کی صحافتی تنظیموں اور میڈیا اداروں کو ہم آواز ہونا ہوگا ورنہ یہ  سلسلہ  یہاں نہیں رکنے والا۔  یہ  قاتل بہت ساری  آوازوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کرتے رہیں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انور جان ایک  بہادر اور با اصول صحافی تھے۔ ان کو انصاف دلانے سے مزید انور جان جیسے جرات مند انسان پیدا ہوسکتے ہیں لیکن ان کو انصاف نہ ملنے پر معاشرے میں  یہ خوف و ہراس کا ماحول بڑھتا جائے گا۔  معاشرے میں ظلم کے خلاف کوئی بولنے والا رہ ہی نہیں جائے گا۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ  عوام کو قاتلوں کے رحم و کرم سے آزاد کر کے انور جان کے قاتلوں کی گرفتاری اور کارروائی یقینی بنائے۔

یاد رہے کہ  بلوچستان کے ضلع بارکھان میں چار روز قبل قتل ہونے والے سماجی کارکن اور صحافی انور جان کھیتران کے قتل کا مقدمہ صوبائی وزیر خوراک و بہبود آبادی عبدالرحمان کھیتران اور ان کے محافظوں کے خلاف  درج کیا گیا ہے۔ 

مقتول کے بھائی کا الزام تھا کہ 'صوبائی وزیر کے مظالم اور کرپشن کے خلاف سوشل میڈیا پر لکھنے پر انور جان کو قتل کیا گیا۔' تاہم عبدالرحمان کھیتران نے واقعے میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

میڈیا سے گفتگو میں اپنے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ ان کی انور جان یا ان کے خاندان سے کوئی دشمنی تھی اور نہ ہی قتل کے اس واقعے سے ان کا یا ان کے کسی محافظ کا کوئی تعلق ہے۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ