کھیلوں کے میدان بند، کھلاڑیوں کا وزن کئی کلو بڑھ گیا

'کرونا وائرس کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبان صحت مندانہ سرگرمی اختیار کرنے کی تجویز پر زور دے رہے ہیں لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ابھی تک کھیل کود کے میدان  بند ہیں اور ان کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں ہوا ہے۔'

(انڈپینڈنٹ اردو)

کرونا وائرس کی وبا کے بعد پاکستان میں تمام پارکوں اور سیاحتی مقامات سمیت کھیلوں کے میدان بھی غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔

اگرچہ موجودہ وقت میں پاکستان کے تمام کاروبار زندگی کھول دیے گئے ہیں۔ تاہم کھیل کے میدان پانچ مہینے گزر جانے کے باوجود اب بھی بند ہیں جس کی وجہ سے کھلاڑی نہ صرف سستی اور فربہی کاشکار ہوگئے ہیں بلکہ ان میں ذہنی دباؤبھی بڑھتا جارہا ہے۔

پاکستان بھر سے قومی اور بین الاقوامی سطح پر  مختلف گیمزکھیلنے والے کئی کھلاڑیوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ روزانہ چار سے پانچ گھنٹے ورزش کرنے والے کھلاڑی پچھلے پانچ مہینوں سے سپورٹس کمپلکس نہیں جارہے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف ان کی کھیل میں کارکردگی متاثر ہو گئی ہے بلکہ کئی کلو وزن بھی بڑھ گیا ہے۔

پنجاب سے تعلق رکھنے والے دوڑ کے عالمی مقابلوں کے کھلاڑی محمد نواز کا کہنا ہے کہ کرونا کا مقابلہ کھیلوں کےذریعے بہتر طور پر ہو سکتا تھا لیکن  اس کے برعکس کھیلوں کے میدان ہی بند کر دے گئے۔

’میں لاہور میں سرحد کے پاس ایک پسماندہ گاؤں  برکی سے تعلق رکھتا ہوں۔ میرے شوق کا یہ عالم تھا کہ وبا سے پہلے روزانہ موٹر سائیکل سے تقریباً 35 کلومیٹر راستہ طے کرکے سپورٹس کمپلکس پہنچتا تھا تاکہ جسمانی طور پر فٹ رہوں۔ اب یہ حال ہے کہ گاؤں میں تو جم ہے نہیں اور لاہور کے پارکوں میں رکھوالے  ایسی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ دوبارہ جانے کا حوصلہ نہیں ہوتا۔ ‘

محمد نواز نے مزید کہا کہ کرونا وائرس کے حوالے سے ڈاکٹر صاحبان صحت مندانہ سرگرمی اختیار کرنے کی تجویز پر زور دے رہے ہیں لیکن مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ابھی تک کھیل کود کے میدان  بند ہیں اور ان کے لیے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں ہوا ہے۔

پشاور سے بیڈمنٹن کے نیشنل چیمپئین اور پاکستان رینکنگ نمبر ون کھلاڑی مراد علی بھی کھیل کا میدان بند ہونے کی وجہ سے اچھے خاصے پریشان ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان پہلے ہی کھیلوں کے حوالے سے ایک کمزور ملک رہا ہے اب اور پیچھے چلا گیا ہے۔

’کھلاڑی مقابلہ کرنے کی سکت کھو چکے ہیں۔ ایک بین الاقوامی سطح کا کھلاڑی ہونے کی حیثیت سے میں خود  روزانہ 3 گھنٹےصبح اور دو ڈھائی گھنٹے شام کو ورزش کرتا تھا۔ ایک کھلاڑی ہی جانتا ہے کہ ایک دن گیم کے لیے نہ جانا کیا معنی رکھتا ہے۔مختلف صوبوں سےمیرے بہت سےکھلاڑی ساتھیوں کا کئی کلو وزن بڑھ گیا ہے۔ مقابلے تو نہ ہو سکیں گے کم از کم حکومت کھیل کے میدان ہی کھول لے۔‘

خیبر پختونخوا بیڈمنٹن ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل امجد خان نے مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے تجویز دی کہ حکومت کی جانب سے کھیلوں پر عارضی پابندی کی وجہ سے تمام قومی اور بین الاقوامی کھیل بری طرح سے متاثر ہو رہے ہیں اور ان کی کئی سالوں کی محنت ضائع ہو رہی ہے۔

’انہیں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر نقصان ہو رہا ہے۔حکومت کو چاہیے کہ احتیاطی تدابیر کے تحت  فی الحال صرف ان کھیلوں سے پابندی ہٹا دے جن میں جسمانی کانٹیکٹ نہیں ہوتا جیسے کہ ریکٹ گیمز جن میں ٹیبل ٹینس اور بیڈمنٹن وغیرہ شامل ہیں۔ ‘

 کھیلوں کے میدان بند رہنے کے مسئلے سے متعلق انڈپینڈنٹ اردو نے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر جنرل ریٹائرڈ عارف حسن سےبھی بات کی تو انہوں نے کہا کہ چونکہ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا کام پالیسی سازی کے لیے تجاویز دینا اور مسائل کی نشاندہی کرنا ہے لہذا انہوں نے اس مسئلے پر وزارت آئی پی سی (بین الصوبائی کوآرڈینیشن)سے دو ہفتے قبل بات کی تھی۔

’ہم نےحکومت کو تجویز دی کہ ایس او پیز کے تحت میدان کھولے جاسکتے ہیں، کیونکہ بہت سارے گیمز میں سماجی فاصلہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد وزارت بین الصوبائی کوآرڈینیشن نے کانفرنس کرکے ارادہ ظاہر کیا ہے کہ میدان شائد عید کے بعد کھول لیے جائیں۔ میری رائے پوچھیں تو فوراً ہی کھل جانے چاہیئں۔ کیونکہ دنیا کے ان ممالک نے بھی کھیلوں کی جگہیں کھول دی ہیں جہاں کرونا کافی شدید رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیبر پختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کے  صدر عاقل شاہ نے بتایا کہ کل ہی اس مسئلے پر ان  کی ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کے ساتھ میٹنگ ہوئی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ عید کے بعد قیوم سٹیڈیم اور سپورٹس کمپلکس کھولنے کے لیے وزیر کھیل وسیاحت سے مشاورت کریں گے۔ لہذا قوی امکان یہ ہے کہ سٹینڈرڈ آپریٹینگ پروسیجر کے مطابق بعض گیمز کے لیے میدان کھول لیے جائیں گے۔

جنرل ریٹائرڈ عارف حسن نے کھلاڑیوں کے لیے ایک پیغام میں بتایا کہ ضروری نہیں ہے کھلاری خود کو فٹ رکھنے کے لیے جم جائیں ’سمارٹ فون تقریباً ہر کسی کے پاس ہے، انٹرنیٹ پر ایسے ہزاروں آئیڈیاز ہیں، اگر کسی کے پاس موبائل نہیں تو پھر بھی ورزش کے لیے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔‘

تاہم دوسری جانب کھلاڑیوں کا کہنا ہے کہ بات صرف جسمانی ورزش کی نہیں ہوتی بلکہ اس میں ماحول اور آزادانہ نقل وحرکت کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے جس سے ذہنی آسودگی ملتی ہے اور کھلاڑیوں میں کچھ کر دکھانے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل