نوجوان سیاست دان کب سامنے آئیں گے؟

پچھلے اٹھارہ سال میں ایک نسل جوان ہوئی ہے جو لولی لنگڑی ہی سہی مگر جمہوری دور میں پروان چڑھی۔ یہ نوجوان جمہوری روایات کو ماضی کی نسل سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

 ماحولیات اور صنفی مسائل پر تو نوجوان پیش پیش نظر آتے ہیں لیکن سیاست میں انہیں پروان چٌڑھانے کا رجحان بظاہر کم ہے (اے ایف پی) 

پاکستان شاید دنیا کا وہ واحد ملک ہے جہاں سیاست دان ریٹائرمنٹ نہیں لیتے اور بلند ترین عہدے تک پہنچنے کے باوجود اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ پارلیمان میں موجود رہیں اور عہدوں کی دوڑ نہ چھوڑیں۔

عمران خان، نواز شریف، آصف زرداری، شہباز شریف اور کئی دوسرے 70 کی دھائی کو پہنچنے والے ہیں مگر اب بھی عہدوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پاکستان کو نہ صرف ایک نئی جمہوریہ کی ضرورت ہے بلکہ اب اس ملک کی باگ دوڑ نوجوان رہنماؤں کو لینی چاہیے۔

یہ تحریر آپ مصنف کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں

 

پرانے سیاست دانوں کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ چند غیر جمہوری عادات ان میں اتنی گہری ہو چکی ہیں کہ وہ اسے اب چھوڑ نہیں سکتے۔ مثلا کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ عمران خان کبھی کنٹینر سے اتر کر وزیر اعظم بنیں گے۔ عہدہ ان کے پاس آگیا لیکن رجحانات حکمرانی کے نہیں ہیں۔

کیا آپ سوچ سکتے ہیں کے شہباز شریف ٹیکنوکریسی چھوڑ کر سیاست دان بنیں گے۔ ان کی ہمیشہ کوشش یہی رہی گی کے سیاسی انجینرز سے کوئی معاہدہ ہو جائے اور اگلے الیکشن میں ان کے حق میں دھاندلی ہو۔

اسی طرح زرداری صاحب کتنی ہی کوشش کر لیں کاروبار اور سیاست کو جدا نہیں کرسکتے اور چھابڑی والے کے مبینہ اکاؤنٹ نکلتے رہیں گے۔ یہی حال دوسرے سیاست دانوں کا بھی ہے جو مارشل لا کے سائے میں پل کر بوڑھے ہوئے۔

پچھلے اٹھارہ سال میں ایک نسل جوان ہوئی ہے جو لولی لنگڑی ہی سہی مگر جمہوری دور میں پروان چڑھی۔ یہ نوجوان جمہوری روایات کو ماضی کی نسل سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔ میری ٹیم میں کئی نوجوان شامل ہیں اور میرے زیادہ تر سیاسی فیصلے ان سے مشاورت کے بعد ہوتے ہیں۔

ان نوجوانوں میں مجھے گہرائی بھی نظر آتی ہے اور یہ مسائل کو بھی بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ ان کے تجویز کردہ حل بھی مجھے قابل عمل لگتے ہیں۔ اب ہمیں اس نوجوان قیادت کو آگے لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں ذاتی طور پر یہ سمجھتا ہوں کے سیاسی بلوغت 40 سال میں حاصل ہوتی ہے اور اسی عمر کو میں نوجوان سیاست دان کہہ رہا ہوں۔

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو میں نے کبھی سیاسی پارٹیاں تصور ہی نہیں کیا بلکہ یہ مبینہ خاندانی کاروباری ادارے ہیں جن میں بہت سے لوگ ملازمت کرتے ہیں۔ ملازم مشورہ تو دے سکتا ہے مگر فیصلے بالآخر مالک اور اس کے خاندان کا ہوتا ہے۔

ان پارٹیوں میں مجھے بہت سے قابل نوجوان نظر آتے ہیں لیکن نہ ان کی بات سنی جاتی ہے اور نہ انہیں فیصلے کرنے کی آزادی ہے۔ وزیر انہیں بنایا جاتا ہے جو یہ ثابت کر دیں کہ مالکوں کے وفادار ہیں۔ مالکان وراثت میں یہ پارٹیاں اپنے بچوں کے نام کر جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بلاول اور مریم کی سیاست میں شمولیت پر میں نے کبھی اعتراض نہیں کیا لیکن مجھے اس پر اعتراض ہے کے دونوں کو ضلع کی سطح سے اپنی سیاست شروع کرنی چاہیے تھی تاکہ ان کی عوامی سیاست کی تربیت ہو سکے۔ ان دونوں کے والدین نے ان کی حکمرانی کی تربیت کی ہے اور انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ غربت اور بھوک کسے کہتے ہیں۔

انہیں کبھی اس کا ادراک نہیں ہوگا کہ ایک نوجوان یونیورسٹی سے ڈگری لینے کے بعد کتنے دھکے کھاتا ہے اور آگے بڑھنے کے لیے کن مراحل سے گزرتا ہے۔ انہوں نے جو جیل اور عدالتوں کی مشکلات دیکھی ہیں اس کا تعلق حکمرانی سے ہے عوام کے مسائل سے نہیں۔

عمران خان سے لوگوں کو امید تھی کہ وہ نوجوان سیاست دانوں کی ایک کھیپ تیار کریں گے مگر ان کا رویہ محلے کے بظاہر بدمعاش کا ہے جو زیرے تربیت کمسن بدمعاشوں کو ترغیب دیتا ہے کہ کسی پر کیچڑ اچھال دیں، کسی کا گریبان پھاڑ دیں یا کسی کی بے وجہ بےعزتی کر دیں۔

کیا آپ سمجھتے ہیں علی زیدی، فیصل واوڈا، مراد سعید یا فیاض الحسن چوہان میں اتنی سنجیدگی یا صلاحیت ہے کہ آپ ان سے عوامی مسائل کے حل کی توقع کریں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کی تربیت عمران خان نے اپنے ہاتھ سے کی ہے اور یہ روز کسی نہ کسی پر کیچڑ اچھال رہے ہوتے ہیں۔ سینکڑوں نوجوان جو سوشل میڈیا پر گلیاں دیتے ہیں وہ ان کے علاوہ ہیں۔ ایک پوری نسل دھرنے کی بھینٹ چڑھ گئی۔

میرے ساتھ جو نوجوان کام کرتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ تیسری دفعہ کسی سیاسی مخالف سے غیراخلاقی رویہ اختیار کرنے کے بعد وہ کبھی میری ٹیم کا حصہ نہیں رہ سکتے۔ صرف دو دفعہ انہیں موقع مل سکتا ہے کہ معافی ہو جائے۔

آخر میں لاہور موٹر وے پر خاتون کے ساتھ اجتماعی زیادتی پر میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کے پہلے میرا خیال تھا موجودہ جمہوریہ ناکارہ ہو چکی ہے مگر اب میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ یہ مردہ جمہوریہ ہے۔ ایک مردے میں ہی نہ جذبات ہوتے ہیں نہ تکلیف محسوس ہوتی ہے اور  نہ کسی کو کچھ دے سکتا ہے۔ اب اس مردہ جمہوریت سے جان چھڑانی ہوگی۔

میں انتظار کر رہا ہوں عوام کے اور کتنے ریپ ہونگے جب ہم جاگیں گے۔ میں قومی مذاکراتی میز پر آپ کے انتظار میں ہوں تاکہ ایک زندہ اور جاوید جمہوریہ قائم ہو سکے۔

۔۔۔۔

ادارے کا اس تحریر میں پیش کئے گئے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ