’پولیس افسر کی لات پڑنے سے حاملہ خاتون کا بچہ ہلاک‘

مانسہرہ کی ایک خاتون نے سوشل میڈیا پر جاری ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ جب یہ ’واقعہ‘ پیش آیا وہ نو ماہ کی حاملہ تھیں، تاہم پولیس اس واقعے سے انکار کر رہی ہے۔

خاتون نے پولیس پر تشدد کرنے کا الزام سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو میں لگایا  (تصویر سوشل میڈیا)

خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی رہائشی حاملہ خاتون نے ایک ویڈیو میں الزام عائد کیا ہے کہ پولیس نے رات کے وقت ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان کے ’پیٹ پر لات ماری‘ جس سے ان کا بچہ پیدا ہونے سے پہلے ہی مر گیا۔

اس مبینہ واقعے کے حوالے سے خاتون نے ویڈیو سوشل میڈیا پر جاری کی ہے جس میں ان کے مطابق جب یہ ’واقعہ‘ پیش آیا وہ نو ماہ کی حاملہ تھیں۔ یہ مبینہ واقعہ مانسہرہ کے دربند پولیس سٹیشن کے حدود میں پیش آیا۔ خاتون کی جانب سے جاری ویڈیو میں دعویٰ کیا گیا کہ ’پولیس نے رات کے وقت ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور ان پر تشدد کیا۔‘

خاتون کہتی ہیں کہ ’میں نے پولیس کی منت سماجت کی کہ مجھے دھکے نہ دیں کیونکہ شوہر بھی گھر پر نہیں لیکن ایس ایچ او دربند نے میرے پیٹ پر لات ماری جس سے میرا بچہ ہلاک ہو گیا۔‘ ویڈیو میں خاتون نے آئی جی، ڈی آئی جی اور حکومت سے انصاف کی اپیل کی ہے۔

چھاپہ کس لیے مارا گیا؟

پولیس سٹیشن دربند کے محرر محمد ندیم سے جب پوچھا گیا کہ خاتون کے گھر پر چھاپا کیوں مارا گیا تو جواب میں انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 14 ستمبر کی رات کو پولیس ایک خاتون کانسٹیبل کے ساتھ اس گھر میں گئی کیونکہ پولیس کو شک تھا کہ خاتون کے شوہر کے پاس منشیات موجود ہے۔

محمد ندیم کے مطابق 'دروازہ کٹکھٹانے پر خاتون باہر نکلیں اور بتایا کہ ان کا شوہر گھر پر نہیں، جس پر خاتون کانسٹیبل تصدیق کرنے کے لیے گھر کے اندر داخل ہوئیں اور دیکھا کہ خاتون کا شوہر واقعی میں گھر پر موجود نہیں تھا۔ خاتون کا شوہر گھر پر نہ ہونے کی وجہ سے پولیس ٹیم واپس چلی گئی لیکن اس سب کے دوران تشدد کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مانسہرہ پولیس کے ضلعی سربراہ صادق حسین بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آف پولیس ہزارہ ریجن نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی اس ویڈیو کا نوٹس لینے کے بعد 24 گھنٹوں میں انکوائری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

ڈی آئی جی آفس سے جاری پریس ریلیز کے مطابق قاضی جمیل الرحمٰن نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اختیارات کے ناجائز استعمال کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اگر جرم ثابت ہوا تو متعلقہ پولیس اہلکار کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس واقعے کے بعد اہل علاقہ نے پولیس کے خلاف احتجاج بھی کیا اور خاتون کو انصاف فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان