بلوچستان: افغان سرحد پر دوسرے تجارتی دروازے کا افتتاح

قلعہ سیف اللہ میں بادینی تجارتی ٹرمینل کے افتتاح پر خطاب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے کی کامیابی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی۔ 

بدھ کو بادینی تجارتی ٹرمینل کا افتتاح وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کیا جن کا ماننا ہے کہ یہ اقدام علاقے کی ترقی کا زینہ ثابت ہوگا (اے ایف پی)

پاکستان کے صوبے بلوچستان کا افغانستان سے متصل سرحدی علاقہ بارہ سوکلو میٹر طویل ہے جس پر افغانستان سے آمدورفت اور تجارت کے لیے کئی سالوں تک صرف ایک دروازہ چمن میں موجود تھا۔ تاہم اس پر دباؤ کے پیش نظر اب ایک دوسرا تجارتی گیٹ بادینی قلعہ سیف اللہ کے مقام پر کھول دیا گیا ہے جس سے علاقہ مکینوں میں امید کی کرن روشن ہوئی ہے۔  

بلوچستان کے سرحدی علاقےچمن سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کی سپلائی ہوتی ہے اور یہاں دس ہزار کے قریب چھوٹے تاجروں کا روزگار بھی اسی سرحد سے وابستہ ہے۔ چمن سرحد پر جہاں تجارتی گاڑیوں کا دباؤ رہتا ہے وہیں اکثر سرحد کی بندش کے باعث تاجروں اور شہریوں کے احتجاج سے امن وامان کی صورت حال بھی خراب ہوجاتی ہے۔ دوسرے تجارتی دروازے سے اس دباؤ میں کمی کا امکان ہے۔

بدھ کو بادینی تجارتی ٹرمینل کا افتتاح وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کیا جن کا ماننا ہے کہ یہ اقدام علاقے کی ترقی کا زینہ ثابت ہوگا۔

اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے کہا کہ صوبائی حکومت اس منصوبے کی کامیابی کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کرے گی اور انتظامی سطح پر متعلقہ اداروں کو مکمل معاونت فراہم کی جائے گی۔ 

وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا: 'چیمبر آف کامرس کے نمائندگان افغانستان کے تاجروں سے اچھے روابط قائم کرتے ہوئے افغان عوام کو تجارت کی طرف راغب کریں تاکہ وہ اس تجارتی راہداری سے پوری طرح مستفید ہوسکیں۔'

ترقی کی امید

اس نئی راہدداری کے کھلنے سے پہلے قلعہ سیف اللہ کے افغانستان سے متصل سرحدی علاقے بادینی میں رہائش پزیر عیسیٰ خان چند سال قبل تک سمجھتے تھے کہ شاید ان کی زندگی میں اس علاقے میں بدلاو نہیں آئے گا۔

عیسیٰ خان کے بقول: 'بادینی پسماندہ علاقہ ہے اور ہم آج بھی صحت، تعلیم اور بجلی جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔' 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عیسیٰ خان کو بادینی سرحد کے افتتاح سے امید ہو چلی ہے کہ اب ان کی مسائل حل ہوجائیں گے۔  

انہوں نے بتاتا: 'بادینی سرحدی دروازے کے افتتاح سے ہم بہت خوش ہیں کہ اب یہاں نہ صرف خوشحالی آئے گی بلکہ تجارت کو بھی فروغ ملےگا۔'

ان کا مزید کہنا تھا: 'سرحدی دروازے سے نہ صرف افغانستان سے سامان کی ترسیل ہوگی بلکہ لوگوں کی آمدرفت سے بھی علاقے کے لوگوں کو فائدہ ہوگا جس طرح چمن کے لوگوں کی زندگی بدل گئی۔'

حکام کے مطابق پاکستان افغان سرحد پر باڑ لگانےکے بعد بادینی میں ملحقہ قبائلی علاقوں میں ذریعہ معاش کے حصول کی کمی کو شدت سے محسوس کیا گیا جس کی وجہ سے اس دروازے کو کھولنے کا فیصلہ ہوا۔ 

سرحدی دروازے کے کمیٹی کے چیئرمین اور ممبر چیمبر آف کامرس اختر کاکڑ حکومت کے اس اقدام کوعلاقے کی پسماندگی کے خاتمے کے لیے پہلا قدم قرار دیتے ہیں۔ 

اختر کاکڑ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: 'یہ ہمارا اور علاقے کے عوام کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ اس سرحدی دروازے کو کھولا جائے۔ بادینی کا سرحدی دروازہ نہ صرف تجارت کے لیے موضوع ہے بلکہ اس سے چمن سرحد پر دباؤ میں بھی کمی آئے گی۔'

اختر کاکڑ کے مطابق: 'بلوچستان سے افغانستان سے متصل سرحد بارہ سوکلو میٹر ہے جس پر تجارت اور آمدورفت کے لیے صرف ایک دروازہ چمن موجود ہے جو افغان ٹرانزٹ ٹریڈ، نیٹو سپلائی اور لوگوں کی افغانستان آمدورفت کا واحد ذریعہ بھی ہے۔' 

اختر کاکڑ کا کہنا تھا: 'بادینی سرحد سے ایک فائدہ یہ ہوگا کہ کابل تک فاصلہ کم ہوجائے گا کیونکہ یہ چمن کے مقابلے میں پانچ سو کلومیٹر قریب ہے۔'

اختر کاکڑ نے بتایا کہ سرحدی دروازے سے ایک جانب جہاں تجارت کا آغاز ہوگا تو دوسری جانب روزگار کے مواقع پیدا ہونے سے لوگوں کے معاشی مسائل بھی حل ہوں گے اور دہشت گردی بھی کم ہوگی۔ 

مزید منصوبے

بادینی سرحد کھولنے کے بعد بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایرانی سرحد سے متصل مزید پانچ دروازے بھی کھولنے کا اعلان کیا۔

لیاقت شاہوانی کے مطابق، وزارت داخلہ نے ایرانی سرحد سے متصل مزید پانچ دروازے کھولنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں عبدوئی، جلگئی ضلع کیچ ، جیرک پنجگور، اور جودر ضلع واشک شامل ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان