پین گنز: افغانستان میں عسکریت پسندوں کا نیا ہتھیار

کابل کریمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ 'یہ ایک پین جیسی ہے۔ نشانے باز اس میں گولی ڈالتا ہے اور نشانہ لے کر بٹن دباتا ہے تاکہ گولی داغی جا سکے۔'

افغانستان کی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کی گئی اس ہینڈ آؤٹ تصویر میں  پین گنز  دیکھے جاسکتے ہیں جنہیں کابل پولیس نے قبضے میں لیا ہے (تصویر: اے ایف پی)

افغان پولیس کا کہنا ہے کہ دارالحکومت کابل میں بڑی تعداد میں 'پین گنز' ضبط کی گئی ہیں، جنہیں حالیہ مہینوں کے دوران جرائم پیشہ عناصر اور عسکریت پسند ٹارگٹڈ قاتلانہ حملوں میں استعمال کرتے رہے ہیں۔

ایک گولی داغنے کی صلاحیت رکھنے والی یہ پستول دیکھنے میں ایک معمولی پین جیسی ہے اور اس کو کہیں بھی آسانی سے لے جایا جا سکتا ہے۔

کابل کریمنل انویسٹی گیشن ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے  اے ایف پی کو بتایا کہ 'یہ ایک پین جیسی ہے۔ نشانے باز اس میں گولی ڈالتا ہے اور نشانہ لے کر بٹن دباتا ہے تاکہ گولی داغی جا سکے۔'

گذشتہ ہفتے پولیس نے بھاری مقدار میں گولہ بارود قبضے میں لیا ہے جن میں 48 پین گنز بھی شامل تھیں۔ اسلحے کے اس ذخیرے میں سٹکی بم بھی شامل تھے، جنہیں گاڑیوں کے نیچے چپکایا جا سکتا ہے اور دور سے ریموٹ کے ذریعے اڑایا جا سکتا ہے۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کا کہنا ہے کہ 'دہشت گرد اس اسلحے کو کابل میں پیچیدہ ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں میں استعمال کرنا چاہتے تھے۔'

افغانستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غربت کے باعث کابل کی سکیورٹی صورت حال خراب ہوتی جا رہی ہے اور شہر میں اغوا، ڈکیتیاں اور قتل عام کی وارداتیں عام ہو گئی ہیں۔

پرتشدد کارروائیوں میں امن کے لیے سرگرم افراد، دانشوروں اور سرکاری ملازمین کو بالخصوص نشانہ بنایا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سی آئی ڈی اہلکار کے مطابق گذشتہ چھ مہینے کے دوران صرف کابل میں 40 سے زائد افراد کو نشانہ بنا کر ہلاک کیا جا چکا ہے۔

اہلکار کا کہنا ہے کہ ان میں سے کئی واقعات میں ایسے ہتھیار استعمال کیے گئے ہیں جن کے بارے میں حکام کو یقین ہے کہ یہ پین گنز تھیں۔

افغان حکام نے ان قتل کی ان وارداتوں کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے جبکہ طالبان نے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے۔

طالبان کو فروری میں امریکہ سے ہونے والے معاہدے کے مطابق اس قسم کے حملے کرنے کی اجازت نہیں ہے گو کہ طالبان کی جانب سے دیہی علاقوں میں سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔

اس وقت بھی طالبان اور افغان حکومت دوحہ میں افغانستان میں جاری 19 سالہ جنگ کو ختم کرنے کے لیے مذاکرات میں مصروف ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا