رہا کیے گئے طالبان قیدیوں نے واپس ہتھیار اٹھا لیے ہیں: افغانستان

افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے  کہ امن مذاکرات کے لیے طالبان رہنماؤں کی طرف سے رکھی گئی شرط کے تحت رہا کیے گئے متعدد طالبان قیدیوں نے دوبارہ ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔

امن قائم کرنے کی حکومتی کوششوں پر نظر رکھنے والے عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان قیادت سے ہونے والے مذاکرات اب تک مثبت ثابت ہوئے ہیں۔(اے ایف پی)

افغان مصالحتی کونسل کے سربراہ عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے  کہ امن مذاکرات کے لیے طالبان رہنماؤں کی طرف سے رکھی گئی شرط کے تحت رہا کیے گئے متعدد طالبان قیدیوں نے دوبارہ ہتھیار اٹھا لیے ہیں۔

امن قائم کرنے کی حکومتی کوششوں پر نظر رکھنے والے عبداللہ عبداللہ نے کہا ہے کہ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں طالبان قیادت سے ہونے والے مذاکرات اب تک مثبت ثابت ہوئے ہیں۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ رہائی پانے والے پانچ ہزار طالبان قیدیوں میں سے اکثریت نے تو نہیں لیکن بعض نے پھر سے اسلحہ اٹھا کر حکومت کے خلاف لڑائی شروع کر دی ہے۔

عبداللہ عبداللہ نے خارجہ تعلقات کی امریکی کونسل کے ساتھ آن لائن کانفرنس میں کہا: 'میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ کچھ طالبان دوبارہ میدان جنگ میں آ گئے ہیں جو معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔'

ان کا کہنا تھا کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان دوحہ میں مثبت انداز میں مذاکرات شروع ہوئے اور دونوں فریقین کے وفود کو کسی حد تک ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک افغانستان میں تشدد کم  نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنے معاہدے کے ساتھ طالبان کے ساتھ امن عمل شروع کرنے والے امریکہ اور پاکستان پر زور دیا ہے کہ وہ ہتھیار اٹھانے والے طالبان پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ 2008 کے بعد وہ پہلی مرتبہ وہ آنے والے دنوں میں پاکستان کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 

امریکی حکام نے منگل کو کانگریس کو بتایا تھا کہ افغانستان میں جاری تشدد اور طالبان کا داعش اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات مکمل طور پر ختم نہ کرنا کامیابی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔

امریکی مذاکراتی ٹیم کےسربراہ زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکہ طالبان معاہدے کے تحت افغانستان میں امریکی فوجیوں میں کمی کے بعد نومبر میں فوجیوں کی تعداد 4500 رہ جائے گی۔ واشنگٹن اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ آیا طالبان اپنے وعدوں کی پاسداری کر رہے ہیں یا نہیں۔

خلیل زاد نے ایوان کی نگران کمیٹی میں ہونے والی سماعت کے دوران بتایا: 'افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کی واپسی کا تعین زمینی حالات اور طالبان کی جانب سے وعدے پورے کیے جانے کی بنیاد پر کیا جائے گا۔'

انہوں  نے مزید کہا کہ کسی بھی لحاظ سے دیکھا جائے تو اس وقت افغانستان میں تشدد بہت زیادہ ہے اور ہم جانتے ہیں کہ امریکی فوج کی تعداد میں کمی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں طالبان نے مختصر مدت کی جنگ بندی کا احترام کیا ہے۔

امریکی افغانستان میں موجود اپنے 12 ہزار فوجیوں کی تعداد آدھی کر چکا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکہ کی جانب سے بیرون ملک جنگوں میں ملوث ہونے کا عمل ختم کرنے کے وعدے کے بعد واشنگٹن نے اعلان کیا ہے کہ طالبان اور افغانستان حکومت کے درمیان ٹھوس بنیادوں پر قیام امن کے بعد وہ مئی 2021 تک تمام فورسز واپس بلا لے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا