پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں اگست 2020 میں موسلادھار بارشوں کے بعد شہری سیلاب پہلی بار نہیں آیا بلکہ محکمہ موسمیات کے اعداد و شمار کے مطابق شہر کو 2000 سے 2020 سے دوران ساتویں بار شدید شہری سیلابوں نے متاثر کیا ہے۔
محکمہ موسمیات کے مطابق شہر میں 2006، 2011، 2012، 2013، 2017 اور اب 2020 میں شہری سیلاب رپورٹ کیا گیا، مگر 2020 والے شہری سیلاب نے پرانے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو کی جانب سے سرکاری محکموں، غیرسرکاری تنظیموں اور ریسکیو ذرائع سے اکھٹے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق حالیہ سالوں کے دوران شہر کے کئی علاقے مون سون بارشوں کے دوران سیلاب کی زد میں آجاتے ہیں، جن میں گلشن اقبال، ملیر ٹاؤن کے کئی علاقے، جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے اطراف کے رہائشی علاقے، شہر کے دو اہم ترین راستے بشمول شاہراہ فیصل اور ایم اے جناح روڈ، تجارتی مرکز صدر ٹاؤن کے کئی علاقے، برنس روڈ، لیاری ٹاؤن کی مچھر کالونی، کھارادر، ٹاور، کھڈا مارکیٹ، لیاقت آباد ٹاؤن کے شریف آباد اور غریب آباد، ناگن، گلشن میمار، سعدی ٹاؤن، صفورہ گوٹھ، عزیز آباد، نیپا چورنگی، نارتھ کراچی، نیو کراچی، ڈرگ روڈ، اورنگی، کورنگی اور شہر کے سب سے بڑے قدرتی نالے گجر نالے کے اطراف کچی آبادیاں ہر سال بارش کے دوران زیر آب آجاتی ہیں۔
اس کے علاوہ گذشتہ چند سالوں کے دوران شہر کے مہنگے ترین علاقے بشمول ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی یعنیٰ ڈی ایچ اے، نیا ناظم آباد، پی ای سی ایس ایچ بھی مون سون کی بارشوں کے دوران ڈوبنے لگے ہیں۔
ماحولیاتی ٹیکنالوجی کے ماہر اور پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر قمر زمان چوہدری کہتے ہیں کہ کراچی میں بارش کے پانی کو سمندر میں لے جانے والے قدرتی نالوں کو مکمل طور پر کھولنے کے ساتھ جب تک شہر کے انفراسٹرکچر کو موسمیاتی تبدیلوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہیں بنایا جاتا، کراچی کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر قمر نے کہا: 'موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ہمارے موسموں میں شدت آ رہی ہے۔ اس کے باعث سیلاب، ہیٹ ویو، مختلف علاقوں میں قحط سالی اور اب شہری سیلاب تواتر سے رونما ہو رہے ہیں۔ اس سال جنوبی سندھ، خاص طور پر صوبائی دارالحکومت کراچی میں آنے والی شدید بارشوں کے بعد شہری سیلاب موسمیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہیں۔ اب سنجیدگی سے منصوبہ بندی کرنے کا وقت آگیا ہے۔‘
مون سون بارشوں کے دوران خیبرپختونخوا کے علاوہ زریں سندھ کے علاقے میرپورخاص، عمرکوٹ، سانگھڑ اور بدین میں سیلاب نے تباہی مچا دی، وہیں کراچی میں شہری سیلاب کی تباہ کاریاں شہہ سرخیاں بنی رہیں۔
کیا کراچی برساتی نالوں پر قبضے اور ان کے سکڑنے کے باعث ڈوبتا ہے؟
2013 میں کراچی میں مسلح افراد کی فائرنگ میں ہلاک ہونے والی سماجی رہنما اور اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی سابق ڈائریکٹر پروین رحمان کی سربراہی میں 14 سال قبل کراچی کے نکاسی آب اور برساتی نالوں کا ایک تفصیلی نقشہ جاری کیا گیا تھا، جس کو بعد میں سرکاری و غیرسرکاری ادارے شہر میں کسی بھی نکاسی آب کے منصوبے کے لیے حوالے کے طور پر استمال کرتے تھے۔
اس نقشے کو بنانے والی ٹیم کے ایک رکن اور موجودہ سینیئر مینجر، میپنگ اینڈ ڈاکومیٹیشن، اورنگی پائلٹ پراجیکٹ اشرف ساگر کے مطابق اس نقشے کو بنانی والی ٹیم نے شہر کے تمام نالوں کے ساتھ پیدل چل کر ان نالوں کی چوڑائی اور لمبائی ناپنے کے ساتھ نالے کے ساتھ آباد بستیوں اور دیگر جگہوں کا بھی جائزہ لیا تھا۔
اشرف ساگر نے بتایا: ’شہر کے تمام بڑے نالے بنیادی طور پر بارش کا پانی سمندر لے جانے والے قدرتی نالے ہیں، جو بعد میں نکاسی آب کے لیے استعمال ہونے لگے اور چونکہ بارش تو کبھی کبھی ہوتی ہے تو عام دنوں میں ان بڑے سائز کے نالوں میں نکاسی آب کا پانی تھوڑی سی جگہ سے بہہ رہا ہوتا ہے، ایسے میں لوگ سمجھتے ہیں کہ نالہ تو بس چھوٹا سا ہے، باقی نالے کی جگہ خالی ہے، اس لیے لوگ نالے میں آبادیاں بنانے کا سوچتے ہیں۔
'سروے کے دوران ہم نے دیکھا کہ جہاں سے یہ نالے شروع ہوتے ہیں، وہاں پر ان کی چوڑائی اچھی خاصی ہوتی ہے، جیسے کسی نالے کے شروعات میں چوڑائی 50 فٹ ہے، تو جب وہ کسی آبادی سے گزرنے لگتا ہے تو وہاں اس کی چوڑائی کم ہو کر 30 فٹ رہ جاتی ہے، آگے گنجان آبادی تک آتے آتے اس کی چوڑائی 15 فٹ اور آخر میں تو وہی نالہ صرف چھ فٹ کا رہ جاتا ہے۔
’عام طور پر آس پاس کے رہائشی یا پھر حکومتی ادارے نالے میں کوڑا یا ملبے سے بھرائی کر کے زمین بنا لیتے ہیں۔ بعد میں یہی زمین بیچ دی جاتی ہے۔ اس طرح شہر بھر کے نالوں کے کنارے گنجان بستیاں آباد ہوگئی ہیں۔‘
اشرف ساگر کے مطابق لیاری ندی کے سب سے بڑے قدرتی نالے گجر نالے، جو کہ کراچی کے چار بڑے ٹاؤنز بشمول نارتھ ناظم آباد ٹاؤن، نیو کراچی، گلبرگ ٹاؤن اور لیاقت آباد ٹاؤن سے گزرتا ہے، اس نالے کی بڑے سائز کی 15 شاخیں ہیں، مگر اب اس شہر کے انتہائی اہم نالے کے کناروں پر آبادیاں بننے کے بعد یہ نالہ ایک چھوٹی سی نالی کے طرح بچ گیا ہے۔
’یہی حال سونگل نالے اور مین اورنگی نالے کا بھی ہے، جو اسی طرح سکڑ گئے ہیں۔ اسی طرح شہر کے ایک اور اہم نالے نہرخیام کی چوڑائی آخر میں 50 سے 60 فٹ ہے، مگر اگر اس نالے کو پیچھے جا کر دیکھیں تو پنجاب کالونی اور دہلی کالونی کے پاس اس نالے کی چوڑائی کو کم کر کے اس کے اوپر چھت ڈال کر اس کو تنگ کردیا گیا ہے‘
اشرف ساگر کے مطابق 'چونکہ شہر کے یہ نالے قدرتی طور پر بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے تھے۔ بارشوں کے دوران ان میں پانی بڑی مقدار میں آتا ہے مگر اس تیزی سے نکاس نہیں ہوتا، جس کے نتیجے میں بارش کا پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہوکر شہری سیلاب کا سبب بنتا ہے۔'
اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے ڈائریکٹر سلیم علیم الدین کے مطابق شہر میں بارشوں کے دوران شہری سیلاب کا ایک اور سبب گیس اور پانی کی لائنوں کا نالوں میں سے گزارنا اور نالوں میں کچرا پھینکنا بھی ہے۔ 'کراچی میں پھیلے ہوئے لاتعداد چھوٹے بڑے نالے ہر جگہ سے گزر رہے ہیں تو عام طور پر زیر زمیں بچھائے گئے قدرتی گیس اور پانی کے پائپ ان نالوں کے آرپار گزر رہے ہیں۔ عام گھریلو کچرے کے ساتھ عمارتی ملبہ اور پرانا لکڑی کا فرنیچر بشمول میز، چارپائیاں وغیرہ جو بارش کے پانی کے ساتھ بہہ کر گیس اور پانی کے پائپوں کے ساتھ اٹک جاتے ہیں، جہاں پیچھے سے آنے والا کچرا جمع ہونا شروع ہوجاتا ہے، جس سے نالہ مکمل طور پر بند ہو کر آس پاس کے علاقوں کو ڈبونے لگتا ہے۔'
سلیم علیم الدین کے مطابق بارش کے پانی کو آخرکار سمندر میں جانا ہے مگر جس مقام پر قدرتی نالے سمندر میں گرتے ہیں وہاں پر مٹی ڈال کر مصنوعی زمین بنائی جا رہی ہے، جس سے باعث پانی سمندر میں جانے میں دیر لگتی ہے اور شہر ڈوب جاتا ہے۔ 'سٹی ریلوے سٹیشن ڈرین اور سولجر بازار نالہ ہجرت کالونی اور سلطان آباد کے پاس سمندر کے بیک واٹر میں گرتے تھے، جہاں سے بعد ان کا پانی سمندر میں چلا جاتا تھا، مگر مائی کولاچی روڈ بنانے کے بعد ان کے دہانے کو مٹی ڈال کر چھوٹا کردیا گیا، جس سے پانی جانے کی گنجائش کم ہوگئی ہے۔‘
کراچی میں نالے کتنے اور ان نالوں پر قبضہ روکنے، انہیں صاف رکھنا کس کی ذمہ داری؟
اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے نالوں کے تفصیلی نقشے کے مطابق کراچی میں چھوٹے بڑے 54 نالے ہیں۔ ان میں دو بڑی ندیاں بشمول لیاری اور ملیر ندی ہیں، جن میں بڑی سائز نالے بشمول مین کورنگی نالہ، چکور نالہ، مواچھ گوٹھ نالہ، محمود آباد نالہ، گجر نالہ، پچر ڈرین، میاں والی ڈرین بہت سے علاقوں کا پانی لے کر بعد میں یہ دونوں اہم ندیاں اس پانی کو سمندر میں لے جاتی ہیں۔
سلیم علیم الدین کے مطابق: 'شہر کے تمام نالوں کو صاف رکھنے، سنبھالنے، مرمت کرنے کی بنیادی ذمہ داری بلدیہ عظمیٰ کراچی کی ہے، مگر وہ ان نالوں کی ذمہ داری نہیں لیتی۔ کبھی کہتی ہے کہ کنٹونمینٹس کی ذمہ داری ہے، تو کبھی ریلوے اور کراچی پورٹ ٹرسٹ پر ڈال دیتی ہے۔‘
موسمیاتی پناہ گزین کراچی کو ڈبونے کا باعث؟
حال ہی میں عالمی ادارے ’جرمن واچ‘ نے اپنی 'کلائمٹ انڈیکس رپورٹ 2020' میں پاکستان کو 1999 سے 2018 کے درمیان 'شدید موسمیاتی واقعات' کی بنیاد پر شدید ترین متاثر دس ممالک کی فہرست میں پانچواں سب سے زیادہ متاثر ملک قرار دیا۔
رپورٹ کے مطابق اس عرصے کے دوران پاکستان میں موسمیاتی تغیر کی وجہ سے 152 شدید موسمی واقعات بشمول سیلاب، قحط سالی، گلیشیئر پگھلنے سے بننے والی جھیلوں کے پھٹنے سے آنے والے سیلاب، سائیکلون اور ہیٹ ویو رونما ہو چکے ہیں۔ ان سے پاکستان میں تقریباً 10 ہزار افراد ہلاک ہوئے اور ملک کو 3.8 ارب امریکی ڈالرز کا نقصان اٹھانا پڑا۔
پاکستان کے مختلف علاقوں میں آنے والے ان شدید موسمی واقعات کے باعث وہاں کے لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد اپنے آبائی علاقوں سے دربدر ہوکر موسمیاتی پناہ گزین بن گئی ہے، مگر ان متاثرین کی تعداد سے متعلق سرکاری طور پر کوئی اعداد و شمار موجود نہیں۔
پاکستان کی وفاقی وزارت موسمیاتی تبدیلی کے اعداد و شمار کے مطابق ماضی قریب میں ملک میں آنے والی شدید ترین قدرتی آفات میں یعنیٰ 2010 کے سیلاب کے دوران اپنے آبائی علاقوں سے دربدر ہونے والے 20 لاکھ افراد نے نقل مکانی کی لیکن ان میں 14 لاکھ افراد واپس اپنے آبائی علاقوں کو نہیں لوٹے اور وہ بڑے شہروں میں ہی بس گئے۔
ڈاکٹر قمر زمان چوہدری کے مطابق پاکستان کے بڑے شہر، خاص طور پر کراچی میں ان پناہ گزینوں کے لیے روزگار کے اچھے مواقع ہوتے ہیں، تو ان کی اکثریت کراچی جانے کو ترجیح دیتی ہے۔ 'چونکہ موسمیاتی پناہ گزین کسی بڑی قدرتی آفت سے متاثر ہوتے ہیں اور ان کے پاس نئی جگہ پر رہنے کے مکان بنانے کے پیسے نہیں ہوتے تو وہ شہر میں عام طور پر خالی پڑے ہوئے قدرتی نالوں میں آباد ہو جاتے ہیں۔ اس طرح نالے سکڑ کر چھوٹے ہو جاتے ہیں، جو بعد میں موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنی والی شدید بارش کے بعد شہر میں سیلاب کی صورت پیدا کرتے ہیں۔‘
سندھ حکومت کے ذیلی ادارے سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے اعداد و شمار کے مطابق صرف کراچی میں 2002 تک 539 کچی آبادیاں تھیں جن میں موجود چھ لاکھ 80 ہزار گھرانوں میں 50 لاکھ کی آبادی مقیم تھی۔ ان میں سے اکثریت موسمیاتی پناہ گزینوں کی ہے۔ ان میں سے اکثریت کچی آبادیاں پاکستان ریلوے کی زمین یا پھر برساتی نالوں کے اندر اور کناروں پر آباد ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر غلام رسول نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ موسمی تبدیلیوں کے باعث آنے والے وقت میں کراچی میں مون سون کی شدید بارشوں کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں، اس کے علاوہ ٹراپیکل سائیکلون بھی عام ہو جائیں گے، ایسے میں کراچی کے نکاسی آب کو ہنگامی بنیادوں پر بہتر بنانے کے ضرورت ہے۔
ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق: 'کراچی میں ٹاؤن پلاننگ کے تحت منصوبہ بندی کی ضرورت ہے تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آنے والے سالوں میں شدید موسموں کی گئی پیش گوئی کے بعد انسانی حیاتیوں کو بچایا جاسکے۔‘
کراچی کو ڈوبنے سے کیسے بچایا جاسکتا ہے؟
اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کے ڈائریکٹر سلیم علیم الدین کے مطابق پراجیکٹ کی جانب سے نالوں کے مسئلے کے حل کے لیے ایک ماڈل بنایا گیا ہے جس کے تحت چھوٹے نالوں کو سیمنٹ سے پکا کر دیا جائے، جبکہ بڑے نالوں اور ندیوں میں شہر کے گٹروں کے پانی اور بارش کے پانی کی نکاسی کے لیے دو الگ الگ سیمنٹ کے بند نالے بنائے جائیں۔ 'جب نالہ کچا ہوتا ہے تو اس کی مسلسل صفائی کرنی پرٹی ہے اور اس نالے سے بہنے والے پانی کی رفتار بھی کم ہوتی ہے، جبکہ اگر نالے کو پکا کرنے کے ساتھ اسے ایک بکس کی طرح بنایا جائے تو اس میں کچرا بھی نہیں جائے گا اور پانی کی رفتار بھی تیز ہوگی، جس سے نکاسی جلد ہوسکے گی۔‘
جب سالوں بعد کسی بڑے حادثے کے بعد حکام جاگیں گے تو پانی کب کا سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ نالے پکے کرنے اور بہتر لائینگ سے بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اصل مشکل انتظامی ہے کہ ان پکے نالوں کی تواتر سے صفائی اور مرمت کا خیال کیسے کیا جاتا رہے۔ یہبھی یقینی بنانا ہوگا کہ تجاوزات پھر ان ندی نالوں کے راستے نہ روک پائیں۔