جزائر پر جدید شہر بننے سے کراچی کا ماحولیاتی دفاع ختم ہو جائے گا؟

سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں سے متصل جزائر پر پاکستان کی وفاقی حکومت کا جدید شہر تعمیر کرنے کے حالیہ متنازع ’پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس‘ کے اجرا کے بعد سندھ سراپا احتجاج ہے۔

سندھ اور بلوچستان کے ساحلوں سے متصل جزائر پر پاکستان کی وفاقی حکومت کا جدید شہر تعمیر کرنے کے حالیہ متنازع ’پاکستان آئی لینڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آرڈیننس‘ کے اجرا کے بعد سندھ سراپا احتجاج ہے۔

صوبہ سندھ کی متعدد سیاسی پارٹیاں جزائر پر وفاقی حکومت کی جانب سے مجوزہ شہروں کی تعمیر اور سندھ حکومت کی جانب سے خفیہ طور پر وفاق کو اجازت نامہ دینے کے خلاف 11 اکتوبر کو کراچی میں ریلیاں اور احتجاجی مظاہرے کر رہی ہیں۔

متنازع جزائر کہاں ہیں اور ان پر ابھی کیا ہے؟

پاکستان کی ’زندگی کی لکیر‘ سمجھے جانے والا دریائے سندھ ہمالیہ سے شروع ہو کر پورے پاکستان سے بہتا ہوا زریں سندھ میں بحر عرب میں گرنے سے پہلے مختلف شاخوں میں بٹ جاتا ہے، جنہیں کریک کہا جاتا ہے۔

اس مقام پر دریائے سندھ کا ڈیلٹا بنتا ہے اور دریائے سندھ کے ڈیلٹا میں 17 کریک ہیں، جن میں دو کریک، کراچی کے پھٹی اور کورنگی کریک سے لے کر بھارتی سرحد کے پاس سیر یا سر کریک تک پھیلے ہوئے ہیں۔

حالیہ دنوں متنازع بننے والے جزائر بنڈل، جسے سندھ زبان میں بھنڈار یا بھنڈر اور بڈو جسے مقامی زبان میں ڈنگی جزیرہ کہا جاتا ہے، یہ دونوں دریائے سندھ ڈیلٹا کے کورنگی کریک پر واقع ہیں۔

ماضی میں جب دریائے سندھ پر ڈیم اور بیراج نہیں بنے تھے اور دریائے سندھ پوری قوت سے بہتا تھا، تب دریا کے ساتھ بہنے والی لاکھوں ٹن ریت سمندر میں گر کر جزائر کو جنم دیا۔ ماہی گیروں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم، پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ کے مطابق انڈس ڈیلٹا میں 300 سے زائد جزائر موجود ہیں۔

بنڈل جزیرہ  انڈس ڈیلٹا کے کورنگی کریک پر وقع ہے اور سندھ کے ساحل کے بڑے جزائر میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ یہ جزیرہ کراچی کی ابراہیم حیدری سے چار کلومیٹر اور ڈی ایچ اے کراچی سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس جزیرے کی زیادہ سے زیادہ لمبائی آٹھ کلومیٹر جب کہ چوڑائی پانچ کلومیٹر ہے۔

اس جزیرے پر کورنگی کریک کی کچھ شاخین اندر تک پھیلی ہوئی ہیں اور جوار بھاٹے کے دوران سمندری پانی اندر تک چلا آتا ہے۔ جزیرے کے شمالے حصے میں مینگرو کے جھنڈ نظر آتے ہیں۔ عالمی تنظیم ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر یعنی ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر وائلڈ لائف طاہر رشید کے مطابق اس جزیرے پر تین ہزار چار سو 45 ہیکٹر پر مینگروز کا جنگل موجود ہے۔

اس جزیرے کا زیادہ تر حصہ میدانی ہے، جہاں خودرو جنگلی جھاڑیاں اگی ہوئی ہیں، جبکہ مینگروز کے درختوں پر کچھ اونٹ چرتے نظر آتے ہیں۔

بنڈل جزیرے کے شمالی حصے میں 2007 میں تین ہیلی پیڈ بنائے گئے، جبکہ 2017 میں ایک بڑی سے عمارت تعمیر کی گئی اور چند ماہ پہلے ایک چھوٹی سی جیٹی بنائی گئی ہے۔

جزیرے کے مشرقی حصے میں بحری باز پکڑنے والے شکاریوں کے کچھ کیمپ بنے ہوئے ہیں، جبکہ چند جھونپڑیاں بھی نظر آتی ہیں، مگر وہاں کوئی آبادی نہیں ہے۔

پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ کے مطابق 2005 سے پہلے اس جزیرے پر بہت سے ماہی گیر گھرانے آباد تھے، مگر بعد میں وفاقی حکومت نے اسی طرح جدید شہر بنانے کا اعلان کیا تو ان ماہی گیروں کو زبردستی جزیرے سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔

جبکہ دوسرا متنازع جزیرہ بڈو یا مقامی زبان میں ڈنگی، بنڈل جزیرے سے دو کلومیٹر شمال کی جانب پھٹی کریک پر واقع ہے۔ اس جزیرے کی زیادہ سے زیادہ لمبائی پونے آٹھ کلومیٹر اور چوڑائی ڈھائی کلومیٹر ہے۔

اس جزیرے پر موجود مینگروز کی تعداد بنڈل جزیرے کی نسبت زیادہ نظر آتی ہے اور اس پر انسانی آبادی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ اس جزیرے کا بھی زیادہ تر حصہ میدانی ہے اور پھٹی کریک کی کچھ شاخیں جزیرے کے درمیاں بہتی نظر آتی ہیں۔

اس کے علاوہ بنڈل جزیرے پر صوفی بزرگ محمد یوسف شاہ کی مزار بھی واقع ہے جہاں سالانہ عرس کے موقعے پر ہزاروں عقیدت مند ماہی گیر شرکت کرتے ہیں۔

جزائر کی ماحولیاتی اہمیت

ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ڈائریکٹر وائلڈ لائف طاہر رشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ماحولیاتی لحاظ سے بنڈل جزیرہ بہت اہمیت کا حامل ہے، جہاں موجود مینگروز پر کئی اقسام کے جاندار پلتے ہیں، جن میں 50 سے زائد مقامی پرندے جبکہ ہزاروں مہمان پرندے ہر سال ٹھنڈے ممالک سے یہاں اترتے ہیں۔

طاہر رشید کے مطابق’بنڈل پر موجود منگروز کے جنگل کے نیچے 99 اقسام کی مچھلیاں انڈے دیتی ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ان کے بچے ان مینگروز میں بڑے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مہمان پرندے بھی اچھی تعداد میں یہاں آتے ہیں۔ 2008 میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق اس جزیرے پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار پرندے آئے تھے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ہزاروں ماہی گیروں کا روزگار ان جزائر سے وابستہ ہے۔ ماہی گیر یہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد گہرے پانیوں میں جاکر مچھلی کا شکار کرتے ہیں۔

’اس کے علاوہ کراچی چونکہ سونامی زون میں آتا ہے اور یہاں کبھی بھی سونامی آسکتی ہے، یہ مینگروز کے درخت سونامی کی شدت کو کم کر دیتے ہیں اور کراچی کے لیے منگروز ایک دفاعی دیوار کا کام کرتے ہیں۔ اگر ترقی کے نام پر مینگروز کو کاٹا گیا تو کراچی کے لیے خطرات بڑھ جائیں گے۔‘

پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ جزائر دریائے سندھ کے کریکس پر واقع ہیں، اس لیے یہ جزیرے انڈس ڈیلٹا کا حصہ ہیں اور انڈس ڈیلٹا عالمی معاہدے رامسر کنوینشن کے تحت ایک پروٹیکٹیڈ سائیٹ ہے، جہاں اس قسم کے منصوبے نہیں بنائے جاسکتے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات