بارشیں پہاڑوں کو ہلا سکتی ہیں: تحقیق

بارش کے قطرے پہاڑوں کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں یہ معاملہ طویل عرصے تک زیر بحث رہا ہے اور شاید اب حل ہو گیا ہے۔

سائنس دان بارش سے ہونے والے کٹاؤ کی شرح کا حساب لگانے کے قابل ہو گئے ہیں (اے ایف پی)

یہ جاننے کے لیے زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ دنیا پر بارش کے بہت بڑے اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں فصلوں کی پیدوار، دریاؤں کا بننا یا تباہ کن سیلاب شامل ہیں۔

لیکن بارش کے قطرے پہاڑوں کو کس حد تک متاثر کرتے ہیں یہ معاملہ طویل عرصے تک زیر بحث رہا ہے اور شاید اب حل ہو گیا ہے۔

برطانیہ میں یونیورسٹی آف برسٹل کی ٹیم کی قیادت میں سائنس دانوں کے مطابق ایک تکنیک کی مدد سے ماہرین ارضیات اس امر کو زیادہ صحیح انداز میں سمجھنے کے قابل ہو گئے ہیں کہ پانی کے بہاؤ نے ہمارے سیارے پر بلند ترین پہاڑی چوٹیوں اور تین گہری وادیوں کو کس طرح شکل بخشی ہے۔

اس سلسلے میں ہونے والی پیشرفت کی بدولت سائنس دان بارش سے ہونے والے کٹاؤ کی شرح کا حساب لگانے کے قابل ہو گئے ہیں۔ اس طرح وہ کسی مخصوص علاقے میں زمین کی ساخت اور پانی کے درمیان تعلق کی زیادہ درست تاریخ بیان کر سکتے ہیں۔

برسٹل یونیورسٹی کے کیبٹ انسٹی ٹیوٹ برائے ماحول کے سرکردہ مصنف ڈاکٹر بائرن ایڈمز نے کہا: ’یہ الہامی محسوس ہوتا ہے کہ زیادہ بارش چٹانوں میں زیادہ تیزی سے دریا بنا کر پہاڑوں کو کوئی شکل دے سکتی ہے لیکن سائنس دانوں کا یہ بھی ماننا ہے کہ بارش زمین پر خاصی تیزی سے کٹاؤ کا سبب بن سکتی ہے جس کا لازمی نتیجہ زمین سے چٹانیں باہر نکلنے اور پہاڑوں کو تیزی سے بلند کرنے کی صورت میں نکل سکتا ہے۔‘

’ان دونوں تصورات پر دہائیوں تک بحث ہوئی ہے کیونکہ انہیں ثابت کرنے کے لیے ضروری پیمائشیں بہت محنت طلب حد تک پیچیدہ ہیں۔ اسی وجہ سے یہ بڑی پرجوش پیشرفت بن گئی کیونکہ یہ اس نظریے کی بھرپور حمائت کرتی ہے کہ فضائی اور زمین عوامل کا ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔‘

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ تحقیق کے نتائج جو ہمارے سیارے کے بلند ترین پہاڑی سلسلے ہمالیہ پر مرکوز ہیں وہ ماحولیاتی تبدیلی کے زمین اور بدلے میں انسانی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کے بارے میں پیش گوئی کی راہ بھی ہموار کرتے ہیں۔

محققین کی ٹیم نے اپنی کوششوں کا محور بھوٹان اور نیپال میں ہمالیہ کے وسطی اور مشرقی حصوں کو بنایا ہے کیونکہ دنیا کا یہ علاقہ کٹاؤ کی شرح کے مطالعے کے لیے ان لینڈ سکیپس میں سے ایک بن گیا ہے جنہیں نمونے کے طور پر سب سے زیادہ منتخب کیا گیا۔

ڈاکٹر ایڈمز نے ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی (اے ایس یو) اور لوزیانا سٹیٹ یونیورسٹی کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر دریاؤں کے نیچے آنے والی چٹانوں پر کٹاؤ کے عمل کی رفتار ناپنے کے لیے ریت کے ذرات کے اندر جو آلات استعمال کیے انہیں ’کوسمک کلاکس‘کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر ایڈمز نے کہا: ’جب کوئی ذرہ خلا سے زمین پر پہنچتا ہے تو اس کا امکان ہوتا ہے کہ وہ پہاڑی ڈھلوانوں پر موجود ریت کے ذرات کے ساتھ ٹکرائے کیونکہ یہ ذرات دریاؤں کی طرف لے جائے جاتے ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ریت کے ہر ذرے میں کچھ ایٹم ایک منفرد عنصر میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ یہ شمار کر کے کہ ریت کے ایک بیگ میں اس عنصر کے کتنے ایٹم موجود ہیں ہم یہ حساب لگا سکتے ہیں کہ ریت کتنی دیر سے وہاں ہے اور اسی لیے یہ حساب کر سکتے ہیں کہ پہاڑ کے کٹاؤ کا عمل کتنی تیزی سے ہو رہا ہے۔‘

ڈاکٹر ایڈمز نے کہا: ’ایک بار پورے پہاڑی سلسلے پر کٹاؤ کی شرح ہمارے پاس آ جانے کے ہم اس شرح کا موازنہ دریائی ڈھلان اور بارش میں ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ کر سکتے ہیں۔‘

’ہم نے پورے بھوٹان اور نیپال میں کٹاؤ کی مشاہدہ کی گئی شرح کے انداز کو دوبارہ تخلیق کرنے کے لیے کئی اقسام کے طریقوں سے کام لیا۔ بالآخر صرف ایک طریقہ کٹاؤ کی ناپی گئی شرح کی درست پیش گوئی کر سکا۔‘

’اس تکنیک کی بدولت ہم پہلی بار اس قابل ہوئے ہیں کہ اس مقدار کا تعین کر سکیں کہ بارش غیرہموار زمین پر کٹاؤ کے عمل پر کس طرح اثرانداز ہوتی ہے۔‘

تحقیق میں شامل اے ایس یو میں ارضیات کے پروفیسر کیلن وپل نے کہا: ’ہماری تحقیق کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جغرافیائی مطالعے کے ذریعے زمینی پلیٹوں کی حرکت کے  انداز کا جائزہ لیتے وقت بارش کتنی اہم ہے۔ ان کی بدولت یہ پیشرفت بھی ہوئی ہے کہ سطح پر موسم کے نتیجے میں ہونے والے کٹاؤ کے ذریعے زمینی پلیٹوں کے پھسلنے کے عمل کو کس حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

سائنس دانوں نے کہا ہے کہ اس تحقیق کے نتائج کو ہمالیہ میں زمین کے استعمال کے انتظام، بنیادی ڈھانچے کی تعمیرومرمت اور دوسرے خطرات کے بارے میں معلومات میں مدد کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان پہاڑوں میں ہمیشہ سے یہ خطرہ موجود رہا ہے کہ کٹاؤ کی بلند شرح ڈیموں کے پیچھے مٹی جمع ہونے کے عمل میں بڑے اضافے کا سبب بن سکتی ہے جس سے پن بجلی کے بہت سے منصوبوں کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔

تحقیق کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ بارش پہاڑی ڈھلانوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے جس سے ملبے کے بہاؤ اور پہاڑی تودے گرنے کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ ان تودوں میں کچھ اتنے بڑے ہو سکتے ہیں کہ دریا کو ڈیم میں تبدیل کر دیں جس سے جھیل ٹوٹنے سے آنے والے سیلابوں کا نیا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔

ڈاکٹر ایڈمز نے کہا: ’ہمارا ڈیٹا اور تجزیہ پہاڑی علاقوں جیسا کہ ہمالیہ، میں کٹاؤ کے انداز کا اندازہ لگانے کے  لیے مؤثر تیکنیک فراہم کرتے ہیں اور اس طرح ان خطرات کے بارے میں جاننے کا قابل قدر ذریعہ ہیں جو ان پہاڑوں اور ان کی بیس میں رہنے والے لاکھوں افراد کو متاثر کرتے ہیں۔‘

اب ڈاکٹر ایڈمز جائزہ لے رہے ہیں کہ یہ تحقیق کس طرح بتا سکتی ہے کہ بڑے آتش فشاں پھٹنے کے نتیجے میں پہاڑی علاقوں کا ردعمل کیا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا: ’کٹاؤ کی شرح اور چٹانی خصوصیات کی پیمائش کے لیے اپنے جدید ترین طریقوں سے ہم یہ سمجھنے کے قابل ہو جائیں گے کہ ماضی میں دریاؤں اور آتش فشانوں نے ایک دوسرے کو کس طرح متاثر کیا۔‘

’اس سے ہمیں مستقبل میں پھٹنے والے آتش فشانوں کے  بعد اور یہ کہ قریبی علاقوں میں رہنے والے لوگوں پر ان کے اثرات سے کس طرح نمٹا جائے، آگے کیا ہونے والا ہے اس کا زیادہ درست اندازہ کرنے میں مدد ملے گی۔‘

یہ تحقیق سائنس ایڈوانسز نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق