امریکہ نے ایرانی تیل پر نئی پابندیاں لگا دیں

نئی پابندیوں کے بعد اب ایران مستقبل میں شام اور ونیزویلا کو بھی تیل فروخت نہیں کر سکے گا۔

خلیج فارس میں ایرانی جزیرے خارک پر ایک تیل کی فیکٹری (اے ایف پی فائل)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے پیر کو تیل کے ایرانی شعبے پر نئی پابندیاں عائد کر دیں، جس کے تحت ایران اب مستقبل میں شام اور وینزویلا کو بھی تیل فروخت نہیں کر سکے گا۔

 خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس اقدام سے صدارتی انتخاب میں کامیابی کی صورت میں جو بائیڈن کو ایران کو تیل کی فروخت کی اجازت دینے کی کوشش محدود ہو گئی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے 2018 سے ایران پر سخت پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جن کا مقصد اس کی بنیادی اہمیت کی حامل تیل کی ہر قسم کی برآمدات کو روکنا ہے تاکہ اس کے مالی وسائل کے ذرائع کو مکمل طور پر بند کیا جا سکے۔

نئے اقدام کے تحت ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کی قومی آئل کمپنی، وزارت پٹرولیم اور اس کی آئل ٹینکر کمپنی کے معاملات کو انسداد دہشت گردی کے ادارے کی ذمہ داریوں کا حصہ بنا دیا ہے، جس کے بعد ممکنہ طور پر نئی انتظامیہ کے لیے اس فیصلے کو واپس لینے میں رکاوٹ کھڑی ہو چکی ہے۔

امریکی وزارت خزانہ نے تینوں ایرانی شعبوں کو اس کے پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے ساتھ جوڑ کر نئی پابندیاں عائد کی ہیں۔ اس سے پہلے امریکہ القدس فورس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا ہے کہ نئی پابندیاں ایرانی تیل کے چند بچے کچے خریداروں کے لیے انتباہی پیغام ہونا چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک بیان میں پومپیو نے کہا: ’یہ پابندیاں ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ کے لیے ایک اہم قدم ہیں تاکہ ہمسایوں کو دھمکانے اور مشرق وسطیٰ کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی اس کی صلاحیت کو محدود کیا جا سکے۔‘

ایران کے وزیر تیل بیژن زنگنہ نے پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن کی جانب سے خام تیل کی ایرانی برآمدات کو صفر پر لانے میں ناکامی کے بعد ایک کمزور کوشش کی گئی ہے۔

زنگنہ نے، جنہیں امریکہ نے ذاتی حیثیت میں ہدف بنایا، ٹوئٹر پر پیغام میں لکھا: 'میرے ایران سے باہر کوئی اثاثے نہیں جو پابندیوں کی زد میں آئیں۔ میں ایران کے لیے اپنی جان، مال اور عزت قربان کر دوں گا۔'

ایرانی وزیر خارجہ جواد ظرف نے ٹوئٹر پر اپنے ردعمل میں امریکہ کو پابندیاں لگانے کا عادی قرار دیا ہے جسے یہ عادت چھوڑ دینی چاہییے۔

تین نومبر کے صدارتی انتخاب میں ناکامی کی صورت میں ٹرمپ کا ایرانی رہنماؤں پر یہ آخری وار ہو گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا