سائنس دانوں کو چاند کا ’عرصہ دراز سے کھویا جڑواں‘ مل گیا

ماہرین فلکیات نے مریخ کا پیچھا کرتا ایک سیارچہ دریافت کیا ہے جسے وہ چاند کا ’عرصہ دراز سے کھویا جڑواں‘ قرار دے رہے ہیں۔

(اے ایف پی فائل)

ماہرین فلکیات نے مریخ کا پیچھا کرتا ایک سیارچہ دریافت کیا ہے جسے وہ چاند کا ’عرصہ دراز سے کھویا جڑواں‘ قرار دے رہے ہیں۔

شمالی آئرلینڈ میں آرماغ آبزرویٹری اور پلینٹیریم کے سائنس دانوں نے ایک سیارچہ دریافت کیا ہے جس کی ساخت چاند سے ملتی جلتی ہے۔

خلائی ملبہ جو سیاروں کا ان کے مدار میں پیچھا کرتا ہے انہیں ’ٹروجنز‘ کہا جاتا ہے۔ یہ سیاروں کی کشش ثقل میں پھنس جاتے ہیں اور ان کے آگے یا پیچھے 60 ڈگری تک ہوتے ہیں۔

زمین کے مقابلے میں دوسرے سیاروں کے ٹروجنز ڈھوںڈنا زیادہ آسان ہے کیونکہ زمین کے مدار میں گھومتے کوئی بھی ٹروجنز سورج کے بہت قریب ہوتے ہیں تو انہیں ٹیلی سکوپ سے دیکھ پانا مشکل ہے۔

مریخ کا پیچھا کرنے والا ٹروجن ایک سیارچہ ہے جس کا نام 1998 وی ایف 31 ہے۔

اس کی ساخت کا پتہ لگانے کے لیے سائنس دانوں نے ایک سپیکڑوگراف کا استعمال کیا جو خلائی اجسام سے آنے والی روشنی کی طول موج (wavelengths) کو ناپتا ہے۔

اس کے ذریعے سائنس دانوں نے دیکھا کہ سیارچے کی سطح رنگوں کی کیسے عکاسی کرتی ہے۔

یہی طریقہ حال ہی میں سائنس دانوں نے اس ایک کروڑ کھرب ڈالر مالیت کے سیارچے کے بارے میں معلومات اکھٹا کرنے کے لیے استعمال کیا تھا جو مریخ اور مشتری کے درمیان گردش کر رہا ہے۔

انہوں نے آنے والی روشنی کے سپیکٹرم کا نظام شمسی میں دوسرے خلائی اجسام سے آنے والی روشنی کے سپیکٹرم سے موازنہ کیا تو انہیں معلوم ہوا کہ اس کی روشنی کی بناوٹ شہابی پتھروں یا دوسرے سیارچوں سے تو نہیں ملتی مگر زمین کے گرد گھومنے والے چاند سے ضرور ملتی ہے۔

آرماغ آبزرویٹری اور پلینٹیریم میں پوسٹ ڈاکٹورل ریسرچ اسسٹنٹ ڈاکٹر گالن بورسو نے بتاتا: ’سیارچوں سے آنے والی روشنی کے بہت سے مرکبات کو ہم نے چاند سے مختلف نہیں پایا مگر اگر آپ غور سے دیکھتے ہیں تو اہم فرق موجود ہیں، جسے کہ ایک اور دو مائیکرون کی طول موج پر روشنی کی عکاسی میں گہرائی اور شکل میں فرق۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’اس سیارچے کا سپیکٹرم چاند کے کچھ حصوں سے بہت ملتا جلتا ہے، جہاں چٹانیں اور گڑھے ہیں۔‘

یہ مانا جا رہا ہے کہ اس سیارچے نے یہ خصوصیات شمسی تابکاری لگنے کی وجہ سے حاصل کیں جسے ’سپیس ویدرنگ‘ بھی کہتے ہیں۔

اس سیارچے پر تحقیقی پیپر لکھنے والے ماہر فلکیات ڈاکٹر اپوسٹولوس کرسٹو نے کہا: ’سارا نظام شمسی اس سے بہت مختلف تھا جو ہم آج دیکھتے ہیں۔‘

’نئے بننے والے سیاروں کے درمیان خلا میں ملبے کا ڈھیر تھا اور ان کے تصادم عام تھے۔ بڑے سیارچے جنہیں ہم پلینٹیسملز کہتے ہیں، اکثر ہی چاند اور دوسرے سیاروں سے ٹکرا رہے تھے۔‘

انہوں نے کہا کہ ایسے ہی ایک تصادم سے کوئی ٹکڑا مریخ کے مدار تک پہنچ گیا ہوگا جب وہ سیارہ بن ہی رہا تھا اور یوں اس کے ٹروجن بادلوں میں پھنس گئے ہوں گے۔

جہاں یہ ایک ممکنہ تصور ہے وہیں ایک اور خیال یہ ہے کہ یہ سیارچہ مریخ سے ہی آیا ہوگا۔ اس کی روشنی کے سپیکٹرم کی ہیئت سے سائنس دانوں نے اندازہ لگایا ہے کہ اس میں بڑی مقدار میں پائیراکسن موجود ہے جو سیاروں کے حجم رکھنے والے خلائی اجسام کے اوپری سطح پر پائی جاتی ہے۔

ڈاکٹر کرسٹو نے کہا: ’چاند اور زمین کی طرح مریخ پر بھی اس کی قدیم تاریخ میں تصادم ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک اس پر دیوقامت بوریالس بیسن بنانے کا ذمہ دار ہے جو خود کسی سیارے جیسا چوڑا ہے۔‘

2017 میں یوریکا فیملی نامی ٹروجنز کے کلسٹر کے ایسے ہی وجود میں آنے کے حوالے سے مفروضہ پیش کیا گیا تھا، تاہم یہ فیملی پائیراکسن کی بجائے ولیوین کی بنی ہوئی ہے جو سیاروں کے اندر گہرائی میں پائی جاتی ہے نہ کہ اوپری سطح پر۔

حال ہی میں ایٹم پروب ٹوموگرافی نامی ایک نئی بریک تھرو تکنیک کا استعمال کرکے چاند کی سطح کے بارے میں مزید جاننے اور اس کے پتھر کو ایک ایک ایٹم کرکے تجزیہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

یونیورسٹی آف شکاگو کے ایک ریسرچر کے مطابق اس سے محققین کو چاند کے ایسے پتھروں کے بارے میں نئے انکشافات ڈھونڈنے میں مدد ملے گی جو 50 سال پرانے ہیں اور کچھ اتنے نایاب ہیں کہ جیولاجسٹوں نے اس کے بارے میں سنا ہی نہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس