مہمند میں امن کو یقینی بنانے میں پیش پیش کانسٹیبل جمیلہ بیگم

ضلع مہمند میں تعینات چار ہزار کی پولیس نفری میں شامل محض پانچ خواتین میں سے ایک، جمیلہ بیگم، کا کہنا ہے کہ پولیس فورس کو مزید باحمت خواتین کی ضرورت ہے۔

کانسٹیبل جمیلہ بیگم سابقہ قبائلی ایجنسی ضلع مہمند میں تعینات چار ہزار کی پولیس فورس میں شامل محض پانچ خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ ضلعی انتطامیہ کے دفتر کے مرکزی گیٹ پر دیوٹی سر انجام دے رہی ہیں جہاں دسمبر2010 میں دو خوکش بمباروں نے حملہ کرکے  40 افراد ہلاک اور سو کے قریب زخمی کیے تھے۔

مہمند کے حلیمزئی قبیلے سے تعلق رکھنے والی جمیلہ بیگم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پچھلے دس سالوں سے ڈیوٹی سرانجام دے رہی ہیں، پہلے لیویز فورس میں اور قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا میں انضمام کے بعد اب پولیس فورس میں لیڈی کانسٹیبل کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔

وہ انتظامیہ کے مرکزی گیٹ پر تعینات ہیں جہاں وہ آنے والی خواتین کی تلاشی لیتی ہیں۔ ’میں یہاں پر بہت عزت کے ساتھ ڈیوٹی کرتی ہوں اور اب تک کوئی مسئلہ نہیں رہا جس پر میں اللہ کی شکر گزار ہوں۔‘

قبائلی روایات میں خاتون پولیس اہلکار کے لیے کام کرنا کتنا مشکل ہے؟ اس پر وہ کہتی ہیں کہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے اور جو بھی مزید خاتون پولیس اہلکار ڈیوٹی کے لئےآئیں گی ان کے لیے بھی کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ ’ہمارے بڑے افسران ہمیں ماؤں اور بہنوں کی طرح عزت دیتے ہیں اور خواتین کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘

جمیلہ بیگن نے بتایا کہ وہ صبح آٹھ سے لیکر شام چار بجے تک ضلعی انتظامیہ کے گیٹ پر سرچر کی ڈیوٹی دیتی ہیں اور ساتھ ساتھ مہمند میں پولیس فورس کے ساتھ سرچ آپریشنز میں بھی شامل ہوتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’کبھی کبھی گی کی ڈیوٹی سے جونہی گھر پہنچتی ہوں تو پولیس افسر آکر کہتے ہیں کہ آؤں پولیس نفری کے ساتھ گھروں کی سرچ آپریش کے لیے چلتے ہیں تو وہ ہمارے لیے پھر مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ ہم دو لیڈیز پولیس اہلکار اپر مہمند میں پولیس فورس کے ساتھ ڈیوٹی سرانجام دیتی ہیں۔‘

پولیس کےساتھ سرچ آپریشن میں ہم گھروں کے اندر تلاشی لیتے ہیں اور خواتین کی بھی تلاشی لیتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جمیلہ بیگم نے کہا کہ انہیں نوکری کرنے سے بہت سے فائدے ہیں، وہ تنخوا کے پیسے گھر میں بھی دیتی ہیں اور بیماری اور دوسرے اخراجات بھی اپنی تنخوا ہی سے پورے کرتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پولیس فورس میں خواتین کی کمی کی وجہ سے بہت سی مشکلات ہیں اور جہاں بھی خاتون کی ضروت ہو ہمیں بلانا پڑتا ہے۔ انہوں نے حکومت سے درخواست کی ضلع مہمند پولیس کے لیے مزید خواتین پولیس اہلکار بھرتی کی جائیں۔

ضلع مہمند کی قبائلی خواتین کو پیغام دیتے ہوئےان کا کہنا تھا: ’میں خود ایک قبائلی لڑکی ہوں اور آپ بھی میری طرح ہو۔ جو بھی خواتین پولیس ڈیپارٹمنٹ میں آنا چاہتی ہیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مہربانی کرکے یہ مت کہیں کہ ہم عورتیں ہیں اور یہ مردوں کا ڈیپارٹمنٹ ہے۔ جو آنا چاہتی ہیں، ضرور محکمہ پولیس میں آئیں۔‘

ضلع مہمند پولیس کے ضلعی پولیس آفیسر طاریق حبیب نے ضلعے میں خواتین پولیس کی کمی کے حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ضلع مہمند میں لیویز اور خاصہ دار فروس کے پولیس میں ضم ہونے کے بعد تقریباً چار ہزار پولیس فورس بنتی ہے جس میں اس وقت صرف پانچ خاتون پولیس اہلکار ہیں، ان میں سے چار خواتین مسیحی برادری سے ہیں۔

ڈی پی او ضلع مہمند نے کہا کہ ’خواتین پولیس اہلکاروں کی کمی کا مسئلہ ہمیں ہے اور ہم پہلے سے مقامی طور پر بھی درخواست کر چکے ہیں اور اپنی انتظامیہ سے بھی درخواست کی ہے کہ ہمارے لیے 30تک لیڈی پولیس اہلکاروں کو بھرتی کیا جائے کیونکہ یہاں عدالتوں کے اور دیگر اہم گیٹوں پر خواتین کی تلاشی کے لیے لیڈی سرچر کی ضرورت ہے۔‘

جب ڈی پی او سے سوال کیا گیا کہ کیا قبائلی خواتین پولیس میں آنا پسند کریں گی تو ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے مقامی لوگوں کو سمجھانا پڑے گا کہ خواتین کے لیے ایسی کوئی مشکل ڈیوٹی نہیں ہے اور خواتین کو ہم عدالتوں، ہسپتالوں اور نادرا میں بھی لگا سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ مسئلہ ہے لیکن وہ کوشش کررہے ہیں کہ مقامی لوگوں کو سمجھائیں کہ خواتین کی رات کو ڈیوٹی نہیں ہوگی اور صرف لیڈی سرچر کی ڈیوٹی ہوگی۔

ڈی  پی او مہمند نے بتایا کہ ضلع مہمند میں کل آٹھ تحصیلیں ہیں اور ابھی تک صرف تین پولیس سٹیشنز ہیں۔ ’ہمارا منصوبہ ہے کہ تمام تحصیلوں میں ایک ایک تھانہ بنائیں گے۔ ابھی پورے ضلعے کو پولیس نے کور کیا ہے لیکن مشکلات بہت ہیں، گاڑیوں کی کمی کی، تربیت یقافتہ فورس کی کمی اور انویسٹیگیشن میں مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ پولیسینگ کے لیے سٹرکچر کا بھی مسئلہ ہے۔ اور ابھی تک جو تین پولیس سٹیشن قائم ہیں وہ بھی عارضی عمارت میں بنائے گئے ہیں۔ امید ہےکہ ایک سال میں پورے ضلعے کی آٹھ تحصیلوں میں تھانوں کو قائم کریں گے جس پر کام شروع ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ 2764 خاصہ دار ملیشیا جبکہ  1100لیویز اہلکار پولیس فورس میں ضم کرنے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور اب ان اہلکاروں کی پولیس ٹریننگ کا عمل بھی شروع ہے جبکہ قبائلی پولیس ٹریننگ میں اب تک ضلع مہمند کے پولیس اہلکاروں کی سب سے بہتر پوزیشن رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین