سعودی عرب: موٹرسائیکل ریس میں پرچم لہرانے والا پاکستانی

27 سالہ عثمان غنی کے مطابق: 'اس سبز اور سفید موٹر سائیکل کو بین الاقوامی طور پر مشہور تیز ترین موٹر سائیکلسٹس کے ساتھ دوڑانے کے لیے ریس میں بطور پاکستانی شامل ہونا ایک ایسا احساس ہے جو مجھے ہمہ دم سرخوشی میں مبتلا رکھتا ہے۔'

محمد عثمان غنی کا تعلق کراچی سے ہے۔(تصویر: عرب نیوز)

پاکستان میں پیدا ہونے والے اور اب سعودی عرب میں مقیم 27 سالہ محمد عثمان غنی کا کہنا ہے کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ فیڈریشن انٹرنیشنل ڈی موٹرسائیکل (ایف آئی ایم) جیسی اہم جگہ پر ایک پاکستانی کی حیثیت سے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

1904 میں قائم کیا گیا ایف آئی ایم، موٹرسائیکل گیمز کے لیے عالمی طور پر نگران ادارہ ہے اور یہ موٹرسائیکلنگ کے کھیل کو بین الاقوامی طور پر پروموٹ بھی کرتا ہے۔

عثمان غنی، جن کی موٹرسائیکل پاکستانی پرچم کے سبز اور سفید رنگوں سے مزین ہے، نے اپنا ایف آئی ایم لائسنس 2017 میں حاصل کیا تھا۔

پچھلے تین برس کے دوران موٹرسائیکلنگ سپورٹس کے میدان میں انہوں نے متعدد کامیابیاں حاصل کی ہیں اور انہیں بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا ہے۔

عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: 'یہ ایک انتہائی قابل فخر بات ہے، اس مقام پر وطن کا جھنڈا لہرانے والا میں پہلا شخص ہوں اور دنیا بھر میں کہیں بھی پاکستان کی نمائندگی کرنے سے بہتر میرے لیے کوئی احساس نہیں ہے۔'

انہوں نے بتایا: 'مجھے ہمیشہ پاکستانی ہونے پر فخر رہا ہے لیکن اس سبز اور سفید موٹر سائیکل کو ٹریک پر بین الاقوامی طور پر مشہور ماہر اور تیز ترین موٹر سائیکلسٹس کے ساتھ دوڑانے کے لیے ریس میں بطور پاکستانی شامل ہونا، ایک ایسا احساس ہے جو مجھے ہمہ دم سرخوشی میں مبتلا رکھتا ہے۔'

کراچی سے تعلق رکھنے والے عثمان غنی آج کل سعودی عرب میں مقیم ہیں، جہاں ایسے کھیل پسند کیے جانے کی وجہ سے ان کے اس شوق کو بھی بہت اچھا رسپانس ملا۔

بقول عثمان: 'گاڑیوں کے شوقین لوگوں کے لیے سعودی عرب میں عمر گزارنا ایک خوبصورت تجربہ ہے، یہ ایک حیرت انگیز جگہ ہے جو پیٹرول ہیڈز (گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے شوقین افراد کے لیے ایک اصطلاح) کی جنت ہے۔'

'آپ کو سڑک پر اچھی سے اچھی غیر ملکی گاڑیاں نظر آئیں گی، کچھ حیرت انگیز طور پر انوکھی بائیکس ملیں گی اور یہ ایک ایسا شوق ہے جو وہاں سبھی کو ہے۔'

عثمان غنی نے بتایا کہ بچپن میں گراں پری موٹرسائیکل ریس (موٹو جی پی) دیکھنے کے بعد موٹرسائیکلنگ سے انہیں عشق ہو گیا۔ 'ایک اور یادگار تجربہ بچپن میں اس وقت ہوا جب ایک موٹر سائیکل سوار نے سعودی عرب میں ایک مارکیٹ کی پارکنگ میں کھڑی اپنی شاندار موٹرسائیکل کا مجھے اطمینان سے مشاہدہ کرنے دیا۔'

'اب اگر کوئی بچہ میرے پاس ٹریک پر آتا ہے تو میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ اس سے شفیق برتاؤ کروں۔ آپ کو کبھی نہیں اندازہ ہوتا کہ شاید وہ اگلا مشہور ریسر بن جائے۔'

عثمان غنی نے 18 سال کی عمر میں موٹرسائیکلنگ شروع کی تھی۔ ان کی پہلی پیشہ ورانہ ریس 2017 میں تھی ، جب انہوں نے متحدہ عرب امارات کی نیشنل سپر سٹاک سیریز میں حصہ لیا۔

'میں نے پہلی ریس سے ایک رات پہلے موٹرسائیکل کے ساتھ پورا ایک گھنٹہ گزارا، مجھے اپنی بائیکس سے ہمیشہ بات کرنے کی عادت ہے۔'

2017 وہ سال بھی تھا جب انہیں اپنی زندگی کا سب سے بڑا نقصان برداشت کرنا پڑا تھا۔ موٹرسائیکل حادثے میں ان کے ایک قریبی دوست کی موت ہو گئی تھی، جس کے بعد وہ چھ ماہ تک موٹر سائیکل پر سوار نہیں ہوسکے، لیکن آہستہ آہستہ وہ دوبارہ اپنے شوق کی طرف لوٹ آئے۔

انہوں نے مزید کہا: 'موٹرسائیکل چلانا میرے لیے بالکل علاج کے جیسا ہے، یہاں تک کہ بس بائیک کے بارے میں بات ہی کی جارہی ہو اور یہی معاملہ اکثریت بائیکرز کے ساتھ ہے۔ ہم سب کا مقصد صرف اپنی ذات میں اطمینان محسوس کرنا ہوتا ہے۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ اب ان کا مقصد زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کو موٹرسائیکلنگ میں لے جانا اور بائیکر کلچر کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کرنا ہے۔

'پاکستان اس کھیل کے لیے تیار ہے اور مجھے بہت زیادہ امید ہے۔ پاکستان میں ریس ٹریک کی تعمیر ہو جائے تو وہاں کے نوجوانوں کی صلاحیتوں کو فروغ ملنے کے ساتھ سڑک حادثات بھی کم ہو سکتے ہیں اور بین الاقوامی طور پر کھیلوں سے بھی جڑا جا سکتا ہے۔'

عثمان غنی نے کہا کہ وہ دسمبر میں پاکستان آنے کا ارادہ رکھتے ہیں اور بائیکرز سے ملنے کے لیے پورے ملک خصوصاً کراچی، لاہور اور اسلام آباد کا سفر ضرور کریں گے۔

انہوں نے کہا: 'مجھے واقعتاً کبھی پاکستان کے اندر سفر کرنے کا موقع نہیں ملا، یہ وہ کام ہے جو میں اب اپنے ملک میں دوسرے بائیک سواروں کے ساتھ کرنا چاہوں گا۔'

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل