پی ایس ایل فائنل، جب ٹاس ہارنے نے کراچی کنگز کو چیمپیئن بنا ڈالا

عماد وسیم ٹاس ہارے تو لاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر کے چہرے پر خوشیاں لوٹنے لگیں، مگر جب لاہور کے بلے باز پچ پر پہنچے تو بات ہی کچھ اور تھی۔

کراچی کنگز نے پہلی دفعہ فائنل جیت کر ٹائٹل اپنے نام کیا ہے(اے ایف پی)

منگل کی شام کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں عماد وسیم جب پی ایس ایل فائیو کے  فائنل میچ میں ٹاس کرنے جارہے تھے تو وسیم اکرم بار بار سمجھارہے تھے کہ ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کرنا ہے۔

ان کا مشورہ خلاف توقع تھا کیونکہ  کراچی کے ساحلی موسم میں جیسے جیسے رات ڈھلتی جاتی ہے اوس پڑنے لگتی ہے اور گیند پر نمی آجاتی ہے جس سے نہ سوئنگ ہوتی ہے اور نہ سپن۔ اس لیے ہر کپتان پہلے بولنگ کرنا پسند کرتا ہے لیکن آج دونوں کپتان ٹاس جیت کر بیٹنگ کرنا چاہتے تھے کیونکہ بڑے فائنل میں اگر پہلے بیٹنگ کرکے بڑا سکور بن جائے تو دوسری ٹیم نہ چاہتے ہوئے بھی  پریشر میں آجاتی ہے ۔

یہی وسیم اکرم کا پلان تھا اور یہی قلندرز کے کوچ عاقب جاوید کا۔

عماد وسیم ٹاس ہارے تو لاہور قلندرز کے کپتان سہیل اختر کے چہرے پر خوشیاں لوٹنے لگیں۔ سب کچھ توقعات کے مطابق ہو رہا تھا۔ فائنل میں پہنچے اور ٹاس بھی جیت گئے۔ اب بس مضبوط بیٹنگ لائن کو بڑا سکور کرنا تھا تاکہ کراچی کنگز دوسری بیٹنگ میں پریشر میں آجائے۔  

چمک دار وکٹ بلے بازوں کے منہ میں پانی لارہی تھی۔ فخر زمان اور تمیم اقبال جب اوپننگ کے لیے پہنچے تو بہت خوش نظر آرہے تھے جبکہ دوسری طرف کراچی کنگز کے بولرز متفکر تھے۔  

لیکن کھیل شروع ہوتے ہی جب عماد اور عامر نے ابتدائی اوورز کیے تو دونوں اوپنر حیران ہونے لگے۔ گیند بلے پر صحیح نہیں آرہی تھی، وکٹ نے دھوکہ دے دیا تھا، اوپر سے چمکدار ٹھوس نظر آنے والی وکٹ پر کہیں کہیں نیچے نمی  زیادہ تھی  جس نے وکٹ کا باؤنس متغیر کردیا تھا۔  

 

پاور پلے تک تو بات چل گئی، 36 رنز بن گئے اور کوئی وکٹ بھی نہیں گری لیکن، جیسے جیسے کھیل آگے بڑھتا گیاسکور سست ہوتا چلاگیا۔ تمیم اقبال تو بہت ہی پریشان تھے، کوئی ایک شاٹ بھی صحیح نہیں لگ رہا تھا۔ جب وہ آؤٹ ہوئے تو لاہور قلندرز نے سکھ کا سانس لیا ہوگا مگر ان کے بعد تو کہانی اور خراب ہوگئی۔

حفیظ، ڈنک، ویزا، اور کپتان سہیل کوئی بھی صحیح طرح نہیں کھیل پایا۔ سب تیز کھیلنے کی کوشش میں گیندیں ضائع کرتے رہے یا پھر اونچے شاٹ مارنے کی کوشش میں کیچ آؤٹ ہوگئے۔

داد کے مستحق تھے کراچی کے بولرز ارشد اقبال عمید آصف اور وقاص مقصود، جن کے نام تو بڑے نہیں ہیں لیکن وکٹ کو دیکھ کربےحد مہارت سے متغیر بولنگ کرتے رہے۔ سلو وکٹ پر ان کی بولنگ کھیلنا قلندرز کا امتحان بن گیا تھا۔

بیس اوورز میں صرف 134 رنز کسی فائنل کے شایان شان نہ تھے۔  لاہور قلندرز کا کوئی بھی بلے باز وکٹ کے دوہرے رویے کو سمجھ نہ سکا۔ ایسی وکٹ پر صبر سے کھیلنا پڑتا ہے جیسے جوابی اننگز میں بابر اعظم نے کھیلا لیکن لاہور کے سب ہی بلے باز جلد بازی اور بڑے سکور کی تلاش میں غلطیاں کرتے رہے ،حالانکہ یہ وکٹ بڑے سکور کی نہیں تھی ۔

کراچی  کنگز کے لیے 135 رنز کا ہدف بظاہر ایک آسان ہدف تھا لیکن وکٹ کی بے یقینی دیکھتے ہوئے کراچی کے بلے باز محتاط تھے خاص طور سے بابر اعظم نے محتاط طریقے سے مستحکم انداز میں بیٹنگ کی اور ٹیم کو فتح سے ہمکنار کردیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دور حاضر کے نمبر ون بلے باز ویراٹ کوہلی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ دراصل ٹیسٹ کرکٹ کی ہی ایک توسیعی شکل ہے جہاں اندھا دھند شاٹ نہیں بلکہ صحیح کرکٹ شاٹ ہی سکور بناتے ہیں۔  

بابر اعظم نے اس بات کو پی ایس ایل فائنل میں ثابت کیا۔ وہ صبر اور سکون سے کرکٹنگ شاٹ کھیلتے رہے اور انہیں سکور ملتا رہا، جبکہ لاہور کے کھلاڑی وکٹ کو سمجھے بغیر بلائنڈ شاٹ کھیل رہے تھے اور وکٹ کے ساتھ گیندیں بھی گنوا رہے تھے۔  

لاہور قلندرز کی بولنگ وکٹ کا استعمال اس طرح نہیں کرسکی جیسے کراچی نے کیا تھا زیادہ تر تیز اور اوور پچ بولنگ کرتے رہے جس سے کراچی کو فائدہ ہوا ۔

کراچی کنگز نے 135 رنز کا ہدف پانچ وکٹ کے نقصان پر باآسانی پورا کرلیا جس میں بابر اعظم کے 63 رنز کی ناقابل شکست اننگز نے اہم کردار ادا کیا۔ بابر اعظم کو میچ اور لیگ  کے بہترین کھلاڑی کی ٹرافیاں دی گئیں۔ یہ سال مجموعی طور پر بابر اعظم کے لیے بہت زبردست ثابت ہوا ہے۔

ایک بہت بڑے فائنل کے لیے ایک ناہموار وکٹ کا انتخاب یقیناً شائقین کرکٹ کے ساتھ ناانصافی ہے۔ ایک ایسے میچ میں جہاں وہ  بڑے سکور اور چوکوں چھکوں کی بارش کی امید کررہے تھے وہاں کم سکور نے میچ کے فائنل کا مزہ کرکرا کردیا ۔

دونوں اننگز میں گیند کا رک کر آنا اور کبھی اوپر اور کبھی نیچے رہنا کھلاڑیوں کے ساتھ زیادتی تھی۔ ایک سست رفتار میچ نے گھر بیٹھے لاکھوں شائقین کو مایوس کردیا ہوگا  حالانکہ ایک اچھی وکٹ تیار ہوسکتی تھی جو فائنل کا مزہ دوبالا کردیتی۔  

کراچی کنگز نے پہلی دفعہ فائنل جیت کر ٹائٹل اپنے نام کیا ہے، لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ کراچی کی فتح کے معمار بابر اعظم اور کوچ وسیم اکرم دونوں لاہوری ہیںں۔ لاہوریوں کو شاید دنوں تک یہ قلق رہے گا کہ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔  

لاہور قلندرز نے بھی پہلی دفعہ فائنل تک رسائی حاصل  کی ہے۔  پورا ٹورنامنٹ بہت زبردست کھیلا مگر  بس کنارے کے قریب پہنچ کر بازی ہار گئے۔  

کراچی کنگز کے کپتان عماد وسیم نے جب چمچماتی ہوئی ٹرافی اٹھائی تو کراچی کی پوری ٹیم رقص کررہی تھی لیکن دوسرے کونے پرکھڑے قلندرز کے کپتان سہیل اختر افسردگی سے سوچ رہے تھے کہ کاش ٹاس ہار جاتا تو اچھا ہوتا۔ کراچی کنگز پہلے بیٹنگ کرتی اور پھر نتیجہ کچھ اور ہوتا۔

حقیقت تو یہی ہے کہ کراچی کا ٹاس ہارنا کراچی کے لیے خوش قسمتی کی نوید بن گیا۔  

کراچی کنگز نے اس فتح کو اپنے مرحوم کوچ ڈین جونز سے منسوب کیا ہے۔ بابر اعظم نے فتح کے بعد سوشل میڈیا پر لکھا: ’ ڈینو، جاب ڈن۔‘

پی سی بی نے مشکل حالات میں پی ایس ایل کا اختتام ممکن بنایا اور کھیل کو جس طرح اسی انداز میں جاری رکھا جیسے کرونا (کورونا) کی وبا سے پہلے تھا۔ یہ قابل تعریف ہے ۔

پاکستان سپر لیگ اب پاکستان کا ایک اہم آئیکون بن چکی ہے اور دنیا بھر میں کرکٹ کے شائقین اس کے منتظر رہتے ہیں۔ اس سیزن کےفائنل کو بھی زبردست مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ پچاس لاکھ سے زائد افراد نے پاکستان سے باہر یوٹیوب پر اس کو دیکھا اور اس سے لطف اندوز ہوئے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ