پاکستان میں کرونا وائرس کی دوسری اور مہلک لہر کے باعث ہسپتالوں میں انتہائی نگہداشت کے یونٹس اپنی پوری صلاحیت پر کام کر رہے ہیں اور ان میں مزید مریضوں کو رکھنے کی گنجائش تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ حکام پوری کوشش کر رہے ہیں کہ عوام میں کرونا وبا کے حوالے سے پائی جانے والی عدم حساسیت کا مقابلہ کیا جا سکے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرنے والے کئی ڈاکٹرز کے مطابق ہسپتالوں سے کرونا کے مشتبہ مریضوں کو واپس بھیجا جا رہا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر بڑھتی تعداد کے باعث ملک کا نظامِ صحت بحرانی صورت حال کا شکار ہو سکتا ہے۔
پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل قیصر سجاد کا کہنا ہے کہ ’آنے والے دو ہفتے بہت اہم ہیں اور ہماری صورت حال بہت خراب ہو رہی ہے۔ ہسپتالوں میں 95 فیصد بستر پُر ہو چکے ہیں اور صرف چند ہسپتالوں میں گنجائش باقی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر ہسپتال بھر چکے ہیں اور وہ مزید مریض داخل کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔
ان کے مطابق کرونا وبا کی دوسری لہر ’پہلے سے زیادہ مہلک‘ ثابت ہو رہی ہے۔ حکام رواں ہفتے تمام تعلیمی اداروں اور ان ڈور ریستورانوں کو بند کرنے کا حکم جاری کر چکے ہیں۔ پاکستان میں وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ نے سب کو حیران کر دیا ہے کیونکہ کئی مہینے سے یہی سمجھا جا رہا تھا کہ یہاں وائرس ختم ہو چکا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے امیر ممالک کے برعکس سمارٹ لاک ڈاؤن پر توجہ دیتے ہوئے وائرس پر قابو پانے کا دعویٰ کیا تھا، اب حکومت کی جانب سے عوام کو دوبارہ احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کا کہا جا رہا ہے۔
ہمسایہ ممالک بھارت اور ایران کے مقابلے میں پاکستان کرونا کی پہلی لہر سے بڑے پیمانے پر محفوظ رہا تھا۔ ماہرین کی مطابق اس کی ایک وجہ ملک میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اور دوسری وجہ پاکستانیوں کا اندرون ملک کم سفر کرنے کا رجحان ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں اب تک کرونا کے تین لاکھ 82 ہزار سے زائد کیس سامنے آ چکے ہیں جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 7800 سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارت، جس کی آبادی پاکستان سے پانچ گنا زیادہ ہے، وہاں ہلاکتوں کی تعداد 17 گنا زیادہ رہی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے صحت فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ’کرونا سے ہونے والی ہلاکتوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘ حکام نے انتباہ جاری کیا ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ کرونا سے متاثر ہو رہے ہیں۔ فیصل سلطان کا کہنا ہے کہ ’کرونا کی موجودہ لہر زیادہ جان لیوا ہے۔ وبا بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اور ہمیں اس حوالے سے فکر مند ہونا چاہیے۔‘
اکتوبر کے وسط سے ہی پاکستان کے بڑی شہروں، جن میں گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ اور پشاور شامل ہیں، میں حزب اختلاف کی جماعتیں جلسے کر رہی ہیں۔ ان جلسوں میں شرکت کرنے والے افراد میں سے زیادہ تر ماسک کے بغیر تھے۔ انڈپینڈنٹ اردو کے مطابق اسی طرح حکومت نے بھی پچھلے دنوں متعدد جلسے منعقد کیے جہاں کرونا ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا گیا۔
پنجاب ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ خضر حیات کا کہنا ہے کہ 'وینٹلیٹرز کی تعداد بہت کم ہے اور انتہائی نگہداشت کے یونٹ بھر چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں کرونا بدترین صورت حال اختیار کر چکا ہے۔‘ انہوں نے حکومت سے مکمل لاک ڈاؤن نافذ کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔