کیا لاڑکانہ میں ایچ آئی وی مریضوں کی تعداد چھپائی جا رہی ہے؟

سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں گذشتہ سال خواتین اور بچوں سمیت ایچ آئی وی کے سینکڑوں مریض سامنے آئے تھے۔ اس علاقے میں اب کیا صورت حال ہے؟ ایڈز کے عالمی دن کے حوالے سے خصوصی رپورٹ۔

مئی 2019 کی اس تصویر میں رتو ڈیرو کے گاؤں وسایو میں خواتین ایچ آئی وی سے متاثرہ اپنے بچوں کے ہمراہ (اے ایف پی)

دنیا بھر کی طرح آج (منگل کو) پاکستان میں بھی ایچ آئی وی/ ایڈز کے حوالے سے آگہی بڑھانے کے لیے عالمی دن منایا جا رہا ہے۔ 

ایچ آئی وی/ ایڈز کی عالمی تنظیم (یو این ایڈز) کے مطابق 2019 کے آخر تک دنیا میں تین کروڑ 80 لاکھ افراد ایچ آئی وی سے متاثر ہیں۔ یو این ایڈز نے گذشتہ برس اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ 2019 کے دوران پاکستان میں ایسے مریضوں کی تعداد میں 13 فیصد اضافہ ہوا، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ شرح ہے۔ 

نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام پاکستان نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں تخمینہ لگایا ہے کہ 2020 تک پاکستان میں ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد ایک لاکھ 80 ہزار تک ہو سکتی ہے، ملک بھر میں موجود ایچ آئی وی کے 47 مراکز میں جون 2020 تک 41782 مریض رجسٹرڈ تھے، جن میں سے 23592 مریض زیر علاج ہیں۔  

 صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی تحصیل رتو ڈیرو کے رہائشی ایم لولائی کے مطابق ان کی چار سالہ بیٹی میں ایچ آئی وی کی تشخیص کے بعد وہ پانچ دن تک سرکاری ہسپتالوں کے چکر کاٹتے رہے مگر اب تک علاج نہ ہونے کے باعث گذشتہ روز ان کی بیٹی کا انتقال ہوگیا۔  

والد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میری چار سالہ بیٹی کی طبیعت کئی دن سے خراب تھی، ہم نے ڈاکٹر تو دکھایا تو انہوں نے ایچ آئی وی کا ٹیسٹ لکھ کر دیا۔ ہم نے ٹیسٹ کرایا جس کا نتیجہ 24 نومبر کو آیا، جس کے مطابق میری بیٹی کا ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آیا۔ ہم علاج کے لیے پانچ دن تک سرکاری مراکز کا چکر لگاتے رہے مگر علاج نہ ہونے کے باعث وہ انتقال کر گئی۔‘ 

تحصیل ہسپتال رتو ڈیرو کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر طفیل سیلرو نے بیٹی کا علاج نہ ہونے کے باعث انتقال کرنے کا الزام رد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کا علاج شروع کر دیا گیا تھا۔ ’بیٹی کا ایچ آئی وی ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد ہمارے مرکز پر علاج کے لیے لایا گیا، ہم نے ان کا علاج شروع بھی کر دیا تھا، مگر مرض کی تشخیص میں بہت دیر ہوجانے کے باعث دیگر امراض کی پیچیدگیوں کے باعث وہ انتقال کرگئیں۔‘

 ڈاکٹر طفیل نے مزید بتایا کہ صرف رتو ڈیرو شہر میں ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کے علاج کے لیے تین سرکاری مراکز موجود ہیں، جن میں ایک ایچ آئی وی سے متاثر حاملہ خواتین، ایک بچوں اور ایک بالغ افراد کے لیے ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے آبائی شہر رتو ڈیرو میں گذشتہ سال ایچ آئی وی مریضوں کے معاملے کا مقامی اور عالمی میڈیا میں خاصہ چرچا رہا۔ 

اپریل 2019 میں یہاں بڑی تعداد میں ایچ آئی کیس رپوٹ ہوئے۔ رتو ڈیرو تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال کے سرکاری ریکارڈ کے مطابق 24 اپریل سے 17 مئی تک 15 سے 16 ہزار لوگوں کا ٹیسٹ کیا گیا، جن میں پانچ سے چھ سو تک مثبت کیسز نکلے۔ ان میں اکثریت بچوں اور خواتین کی تھی، جس کے بعد سندھ حکومت نے ایچ آئی وی کے علاج کے لیے مراکز قائم کر کے مفت علاج کرنے کا اعلان کیا تھا۔  

شہر میں گذشتہ کئی سالوں سے نجی کلینک چلانے والے ڈاکٹر عمران عاربانی نے، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ گذشتہ سال انہوں نے سب سے پہلے علاقے میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ کا پتہ چلایا، الزام عائد کیا: ’دو جون 2020 تک سرکاری ہسپتال میں 1352 ایچ آئی وی کے کیس رجسٹرڈ ہوئے لیکن بعد کے اعداد و شمار چھپائے گئے۔‘ 

 انہوں نے دعویٰ کیا کہ صرف ان کے ذاتی کلینک پر اس جولائی سے 30 نومبر تک آنے والے مریضوں میں 1972 مریضوں میں ایچ آئی وی کی تشخیص کے لیے سکریننگ ہوئی تو 219 ٹیسٹ مثبت آئے، جن کے سارے ثبوت ان کے پاس ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے مطابق: ’یہ تعداد میرے کلینک پر آنے والے مریضوں کی ہے جبکہ یہاں درجنوں نجی کلینک اور سرکاری ہسپتال ہیں، ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہوسکتی ہے، مگر سرکاری طور پر اعداد و شمار کو چھپایا جا رہا ہے۔‘ 

انہوں نے مزید کہا: ’گذشتہ سال رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کے سینکڑوں کیس رپورٹ ہونے کے باوجود سرکاری طور پر بمشکل 50 ہزار لوگوں کی سکریننگ کی گئی جبکہ 2017 کی مردم شماری کے مطابق رتو ڈیرو تحصیل کی کُل آبادی تین لاکھ 31 ہزار ہے اور اگر تین سالوں میں 60 ہزار مزید آبادی بڑھنے کا اندازہ لگایا جائے تو بمشکل ساڑھے 12 فیصد لوگوں کی سکریننگ کی گئی۔‘ 

تحصیل ہسپتال رتو ڈیرو کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر طفیل سیلرو نے صرف 50 ہزار لوگوں کی سکریننگ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا: ’ہم سرکاری طور پر لوگوں کی زبردستی سکریننگ نہیں کرتے، جو شخص رضاکارانہ طور پر ہمارے مراکز میں سکریننگ کرانے آتا ہے اس کی مفت سکریننگ کی جاتی ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ اب تک سرکاری طور پر 50 ہزار لوگوں کی سکریننگ کی گئی جن میں ایچ آئی وی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 1200 ہے، ان میں خواتین اور کمسن بچے بھی شامل ہیں۔ 

اس سوال پر کہ کیا سرکاری طور پر سکریننگ روک دی گئی ہے یا پھر ایچ آئی وی مریضوں کی تعداد جان بوجھ کر کم دکھائی جا رہی ہے کے جواب میں انہوں نے کہا کہ رتو ڈیرو تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال میں روزانہ ایچ آئی وی تشخیص کے لیے مفت سکریننگ کی جاتی ہے۔ ’ہم روزانہ 20 سے 30 افراد کی سکریننگ کرتے ہیں جن میں ایک یا دو کے نتیجے مثبت آتے ہیں، یہ نتیجے ہم اپنے محکمے کو ارسال کرتے ہیں۔ جو مریض ہمارے مراکز پر رجسٹر ہیں، انہیں باقاعدہ ادویات ملتی ہیں۔‘ 

علاقے میں گذشتہ برس بڑی تعداد میں ایچ آئی وی کیس آنے کے بعد نجی کلینک چلانے والے ڈاکٹر مظفر گھانگھرو پر الزام عائد کیا گیا کہ وہ اپنے نجی ہسپتال میں علاج کے دوران ایک ہی سرنج سے کئی مریضوں کو انجیکشن لگاتے تھے، جس کی وجہ سے ایچ آئی وی کے اتنے کیسز سامنے آئے۔ بعد میں انہیں گرفتار کرکے کیس چلایا گیا مگر کچھ عرصے بعد ان کو رہا کردیا گیا۔  

ڈاکٹر عمران عاربانی نے دیگر کئی وجوہات کے ساتھ علاقے میں ایچ آئی وی کیسز کی بڑی تعداد کا ذمہ دار استعمال شدہ سرنجز کو قرار دیا مگر سرکاری اعلانات اور کئی قوانین بنانے کے باجود اب تک مقامی ہسپتالوں اور نجی کلینکس پر مریضوں کو ایک ہی سرنج لگائی جا رہی ہے۔

پاکستان میں ایچ آئی وی/ ایڈز کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام پاکستان کی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایڈز کے عالمی دن کی نسبت سے انڈپینڈنٹ اردو نے جب محکمے سے رابطہ کیا تو کسی بھی افسر نے بات کرنے سے انکار کردیا۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت