'میرے بیٹے کو زبردستی جہاز چلانے کا کہا گیا'

سماعت کے دوران پائلٹ احمد منصور جنجوعہ کی والدہ شاہدہ منصور جنجوعہ  کمرہ عدالت میں رو پڑیں۔ انہوں نے عدالت سے کہا ’ان سب کے خلاف کرمنل کارروائی کی جائے، میرے بیٹے کو زبردستی جہاز چلانے کا کہا گیا، میرا بیٹا چیختا رہا مگر انہوں نے کہا جہاز چلاؤ۔'

سات دسمبر 2016 کو چترال سے اسلام آباد آنے والی پی آئی اے کی اے ٹی آر فلائٹ پی کے 661 حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوگئی تھی۔

اس فلائٹ پر جنید جمشید سمیت 42 مسافر سوار تھے، جو حاثے میں  ہلاک ہوگئے تھے۔  

سندھ ہائی کورٹ میں اے ٹی آر طیاروں کے حادثات کی رپورٹ منظر عام پر لانے سے متعلق درخواست کی منگل کو سماعت ہوئی۔

 سماعت کے دوران ڈائریکٹر سول ایوی ایشن، ڈی جی پی آئی اے انجیئرنگ اور دیگر حکام عدالت میں پیش ہوئے۔  

اے ٹی آر حادثے کے متعلق حکام کی جانب سے رپورٹ نہ آنے پر عدالت نے متعلقہ حکام پر اظہار برہمی کیا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے اپنے ریمارکس میں کہا ’کیا پی آئی اے نے اپنی رپورٹ کے بعد کسی پر ذمہ داری عائد کی؟ اگر ہمارا حکم نہ ہوتا تو رپورٹ کبھی آتی ہی نہیں، جو رپورٹ آئی اسے عدالت آنے تک چار سال لگے، پچھلے حادثے کی ذمہ داری کس کی تھی تب بھی تو سیفٹی اقدامات کر رہے تھے، اس طرح کریں گے تو لوگ سفر کرنا چھوڑ دیں گے۔‘

عدالت کے پوچھنے پر پی آئی اے حکام نے بتایا کہ اس وقت پی آئی اے کے پاس چھ اے ٹی آر جہاز ہیں، جن میں سے دو اسلام آباد میں اور چار کراچی میں ہیں۔

ڈی جی انجیئرنگ کے مطابق’1984 سے اب تک اے ٹی آر میں ایسی خامی نہیں آئی تھی۔‘

درخواست گزار اقبال کاظمی نے عدالت کو بتایا کہ پائلٹ ٹھیک تھا، جہاز ہی خراب تھا، جہاز کا ٹربائن بلیڈ ٹوٹا ہوا تھا، پی آئی اے حکام نے خود تسلیم کیا، ٹوٹے ہوئے ٹربائن بلیڈ کے باوجود جہاز کی اڑان بھری گئی؟ 

عدالت نے سول ایوی ایشن اتھارٹی اور دیگر حکام کو ہدایت کی کہ اگلی سماعت میں حادثے سمیت اے ٹی آر طیاروں پر مکمل اور جامع رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ 

حادثے کا شکار ہونے والوں میں پی آئی اے کی اے ٹی آر فلائٹ پی کے 661 کے جونیئر پائلٹ احمد منصور جنجوعہ بھی شامل تھے۔  

سماعت کے دوران پائلٹ احمد منصور جنجوعہ کی والدہ شاہدہ منصور جنجوعہ  کمرہ عدالت میں رو پڑیں۔ انہوں نے عدالت سے کہا ’ان سب کے خلاف کرمنل کارروائی کی جائے، میرے بیٹے کو زبردستی جہاز چلانے کا کہا گیا، میرا بیٹا چیختا رہا مگر انہوں نے کہا جہاز چلاؤ، میرا بیٹا روز کہتا تھا کہ جہاز خراب ہے، وہ کہتا تھا کہ نوکری کی مجبوری ہے جہاز اڑانا پڑ رہا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد میں شاہدہ منصور جنجوعہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا ’میرے شوہر منصور جنجوعہ بھی ایک پائلٹ تھے، 13 سال پہلے وہ برطانوی شہر برمنگھم سے آنے والی ایک فلائٹ سے سفر کر رہے تھے، فلائٹ کے دوران انہیں دل کا دورہ پڑا اور ان کی طبیعت خراب ہوگئی، فلائٹ اترنے کے بعد بھی پی آئی حکام نے کوئی مدد نہیں کی اور بعد میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس واقعے پر بھی ہمیں انصاف نہ ملا اور اب میرا بیٹا بھی چلا گیا۔‘

’میرا بیٹا احمد منصور جنجوعہ سب سے چھوٹا اور میرا لاڈلا تھا۔ وہ گھر کا واحد کفیل تھا۔ اس نے کورس مکمل کرلیا تھا مگر پانچ سال تک نوکری نہیں ملی۔ نوکری ملنے کے چار ماہ بعد یہ حادثہ ہوا، حادثے کے بعد کسی نے کچھ نہیں پوچھا کہ ہم کیسے وقت گزار رہے ہیں۔‘ 

’انصاف کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹتے کاٹتے تین ماہ پہلے میری ٹانگ میں فریکچر ہوگیا تھا اور اب میں فریکچر کے باوجود عدالتوں میں انصاف کے لیے جا رہی ہوں۔‘  

انہوں نے مزید کہا کہ حادثے والی رات کو بھی وہ دربدر ہورہی تھیں، ایک دفتر سے دوسرے دفتر کے چکر لگا رہی تھیں مگر کوئی انھیں کچھ بھی بتانے کو تیار نہ تھا۔  

شاہدہ منصور جنجوعہ نے مزید کہا کہ طیارہ حادثے کے بعد وہ حویلیاں گئیں اور حادثے والی جگہ پر دعا کی۔  

’میری خواہش ہے کہ طیارہ حادثے والی جگہ پر میرے پائلٹ بیٹے سمیت ہلاک ہونے والوں کی ایک یادگار تعمیر کروائی جائے۔ وہاں کے مقامی ناظم نے زمین دینے کا وعدہ کیا مگر آج تک وہ یادگار نہ بن سکی۔‘ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان