پاکستانی ڈاکٹر متحدہ عرب امارات کے’شہید اور قومی ہیرو‘

ڈاکٹر محمد عثمان ابوظہبی کے ایک چھوٹے سے کلینک میں مریضوں کا علاج کرتے ہوئے کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے جس کے بعد 15 مئی کو وہ بھی اسی وائرس کی وجہ سے انتقال کر گئے۔

ڈاکٹر محمد عثمان ابوظہبی کے ایک چھوٹے سے کلینک میں مریضوں کا علاج کرتے ہوئے کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے (تصویر بشکریہ عالیہ عثمان)

متحدہ عرب امارات میں کرونا وائرس سے مرنے والے پاکستانی ڈاکٹر کو خلیجی ریاست کی جانب سے قومی ہیرو اور شہید کا درجہ دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر محمد عثمان ابوظہبی کے ایک چھوٹے سے کلینک میں مریضوں کا علاج کرتے ہوئے کرونا وائرس کے مرض میں مبتلا ہو گئے تھے جس کے بعد 15 مئی کو وہ بھی اسی وائرس کی وجہ سے انتقال کر گئے۔

گذشتہ ماہ 30 نومبر کو متحدہ عرب امارات میں ان تمام افراد کی یاد میں دن منایا گیا جنہوں نے یو اے ای کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ اس دوران ملک کے صدر خلیفہ بن زاید آل نہیان نے ڈاکٹر محمد عثمان کو فالن ہیروز آرڈر بھی دیا۔

اس موقع پر ابو ظہبی کے ولی عہد محمد بن زاید اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر نے سات ہیروز کے خاندان والوں سے ملاقات کی اور ذاتی طور پر ان کا شکریہ ادا کیا۔

ڈاکٹر محمد عثمان کی بیوہ عالیہ عثمان کہتی ہیں کہ ’مجھے ولی عہد کے دفتر سے فون کال آئی کہ وہ مجھ سے پیر بات کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم بعد میں مجھے بتایا کہ وہ مصروف ہیں اور کچھ دنوں میں بات کریں گے۔‘

’پہلے تو مجھے یقین نہیں آیا کہ شیخ محمد مجھے کال کریں گے، لیکن بعد میں مجھے بتایا گیا کہ میرے شوہر کو  متحدہ عرب امارات حکومت کی جانب سے شہید قرار دیا گیا ہے اور میرے اور میرے بچوں کے ویـزے، ان کی تعلیم، میرے روزمرہ کے اخراجات اور مکان کا کرایہ وغیرہ انہوں نے اپنے ذمہ لیا ہے۔ میں بہت زیادہ خوش ہوئی۔‘

ڈاکٹر عثمان کے دو بیٹے ہیں جن کی عمریں چار اور چھ سال ہیں۔

ان کی اہلیہ نے مزید بتایا کہ ’میرے شوہر کو مرے ہوئے چھ ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ ان کے بغیر زندگی بہت مشکل ہے، مگر لوگ کافی مہربان اور مددگار ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عالیہ نے بتایا کے اس دوران ان کے پڑوسیوں، دوستوں اور میڈیکل کمیونٹی، بچوں کے سکول کی جانب سے مدد کی گئی۔

’اس تمام تر مدد کے باوجود میں واپس پاکستان جانے کا سوچ رہی تھی۔ لیکن اس فون کال نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ حکومت نے جیسا وعہد کیا ہے اگر سب ویسا ہی ہوا تو میں یہیں رہوں گی اور میرے بچوں کو بہترین تعلیم ملے گی جس کی میرے شوہر نے خواہش کی تھی۔‘

عالیہ کو اس بات کی بھی خوشی ہے کہ ان کے شوہر کی لگن اور محنت کو متحدہ عرب امارات نے تسلیم کیا ہے۔

’مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ میرے شوہر کو وہ سب مل رہا ہے جس کے وہ مستحق تھے۔‘

ڈاکٹر عثمان کا تعلق پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے علاقے راولاکوٹ سے ہے۔ انہوں نے نجی ہیلتھ کیئر گروپ کے لیے 11 سال تک کام کیا مگر 2019 میں ان کی نوکری چلی گئی۔

تاہم بعد میں انہوں نے ابو ظہبی کے ایک چوٹھے سے کلینک میں کام شروع کر دی جہاں زیادہ تر مزدور پیشہ افراد کا ہی اعلاج کیا جاتا ہے۔

(بشکریہ عرب نیوز)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا