عرب ملکوں اور اسرائیل میں تعلقات کے پیچھے جیرڈ کشنر کون ہیں؟

اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق جیرڈ کشنر کی سفارت کاری کو ’بچگانہ اور لائٹ ویٹ‘ قرار دے کر ان کا تین سال سے زیادہ عرصے تک مذاق اڑایا گیا لیکن ان کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں اہم تبدیلیاں آئی ہیں۔

جیرڈ کشنر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد ہیں(اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور کے آخری دنوں میں ان کے داماد جیرڈ کشنر کو مشرق وسطیٰ میں تعطل کے شکار امن عمل کو آگے بڑھانے میں نمایاں کامیابیاں ملی ہیں۔

متحدہ عرب امارات کو جدید ترین جیٹ لڑاکا طیارے ملنے والے ہیں تو مراکش کے کئی دہائیوں پرانے علاقائی دعوے کو تسلیم کیا جا رہا ہے، اسی طرح سوڈان کو دہشت گرد ملکوں کی امریکی فہرست سے نکالا جا رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے بعد اچانک وہ مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو وہ بڑے عرصے سے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ یہ سب امریکہ کے کچھ ہفتوں میں سبکدوش ہونے والے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد جیرڈ کشنر کی روایتی سفارت کاری کی آخری لمحے میں فتح کی بدولت ممکن ہوا۔

جیرڈ کی سفارت کاری کو ’بچگانہ لائٹ ویٹ‘ قرار دے کر ان کا تین سال سے زیادہ عرصے تک عام مذاق اڑایا جاتا رہا ہے۔ وہ اپنی مشہور اہلیہ، مسائل کا شکار پراپرٹی کے سودوں اور اپنے والد کی قید کے سبب زیادہ جانے جاتے ہیں۔ تاہم انہوں نے ستمبر سے نام نہاد ابراہم معاہدے میں شامل ہو کر چار عرب ملکوں کے معاملے میں جو کامیابیاں حاصل کی ہیں انہیں ٹرمپ کے کیمپ نے سراہا ہے۔

جمعرات کو مراکش کے ساتھ نئے معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے کشنر نے رپورٹروں سے بات چیت میں کہا: ’صدر ٹرمپ نے ناگوار گزرنے والی پالیسی اختیار کی، پرانے خیالات اور تعطل نے عرب اسرائیل تنازعے کو طویل عرصے تک حل سے دور رکھا۔‘ مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری کے ماہرین متفق ہیں کہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے پہلے اشارے کے بعد کشنر تیزی سے آگے بڑھے۔

سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے دور میں مشرق وسطیٰ کے لیے نمائندے کی ذمہ داریاں نبھانے والے ڈینس روس کہتے ہیں: ’ان کے پاس اختیارات ہیں، وہ ذاتی نوعیت کے تعلقات قائم کرنے کا ہنر جانتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ موجودہ حالات میں ان کی خدمات کا واضح طور پر کچھ اعتراف کیا جانا چاہییے۔‘

کشنر کے اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نتن یاہو کے خاندان کے ساتھ خاندانی مراسم ہیں۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے فلسطینیوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کے دکھاوے پر مبنی کئی دہائیوں سے جاری امریکی پالیسی کی خلاف ورزی کی۔

ٹرمپ نے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت کے طور پر تسلیم کیا اور وہ طویل عرصے سے تعطل کے شکار مشرق وسطیٰ منصوبے کو جنوری 2020 میں سامنے لائے اور رضامندی ظاہر کی کہ اگر نتن یاہو مغربی کنارے کو اسرائیل کا حصہ بنانا چاہتے ہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں۔

اس وقت کشنر نے امریکی ٹیلی ویژن سی این این پر بات چیت میں فلسطینیوں کو، جنہیں محدود ریاست کی پیش کش کی گئی تھی، خبردار کیا تھا کہ وہ ایک اور موقعے کو اس طرح ضائع نہ کریں جیسے وہ پہلے مواقعے ضائع کرتے رہے ہیں۔

دوٹوک اتھارٹی

صدر ٹرمپ کے عہدہ چھوڑنے تک کشنر 40 سال کے ہو جائیں گے۔ انہوں نے مشرق وسطیٰ کے معاملے پر خاموشی سے کام کیا اور امریکی دفتر خارجہ کو بڑی حد تک ایک طرف رکھا۔ روس کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں مذاکرات کاروں اور مصالحت کروانے والوں کو جس کی ضرورت ہے وہ واضح اتھارٹی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

واشنگٹن انسٹیٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی میں عرب اسرائیل تعلقات کا مطالعہ کرنے والے ڈیوڈ میکووسکی کے مطابق ٹرمپ اور کشنر کے کردار کے علاوہ بھی خلیجی عرب ملکوں کی جانب سے اسرائیل کو تسلم کرنے کے بنیادی عوامل موجود ہیں۔

عرب ملک علاقے میں امریکی فورسز کی تعداد میں کمی اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے خوف زدہ تھے جب کہ انہیں ٹیکنالوجی کے میدان میں اسرائیل کی برتری کا بھی علم تھا۔

میکووسکی نے کشنر کی پالیسی کے بارے میں کہا کہ اگر وہ اس پر انحصار کر سکیں تو انہیں امید ہو گی کہ امریکہ میں نئی انتظامیہ اس میں تبدیلی لا کر دیکھ سکتی ہے کہ آیا اس میں مسئلہ فلسطین کے لیے بھی کچھ نکل سکتا ہے یا نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا