قطر سے تعلقات کی بحالی ایران پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع

انڈپینڈنٹ فارسی کی ایڈیٹر ان چیف کاملیا انتخابی فرد لکھتی ہیں کہ قطر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا سب سے اہم نکتہ جو بائیڈن کی صدارت کے آغاز کا ہے جن کے ایجنڈے پر ایران کے ساتھ ایک نیا جوہری معاہدہ ہے۔

منگل کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (دائیں)نے قطری امیر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی  کا استقبال کیا۔(اے ایف پی /سعودی شاہی محل)

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے قطر سے تعلقات منقطع کرنے کے تین سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد قطر کے امیر نے اس ہفتے سعودی عرب میں خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے اجلاس میں شرکت کی۔

قطر پر عائد پابندیاں ختم کر دی گئیں اور بندشیں اٹھا لی گئیں اور سعودی ولی عہد نے بھی اس فیصلے کو مکمل طور پر تسلیم کیا ہے۔ یہ اس خطے کے لیے نئے سال کے اہم ترین واقعات میں سے ایک ہے۔

یہ اہم نہیں ہے کہ کیا سعودی عرب اور اس کے اتحادی قطر پر پابندیاں عائد کرنے کے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں یا نہیں۔ یہاں اصول اور اہم معاملہ خلیج تعاون کونسل کے ارکان کے درمیان تعلقات کی بحالی اور اتحاد کے امکانات ہیں۔

خلیج تعاون کونسل 40 سال قبل قائم کی گئی تھی جس کا مقصد خطے کو ایران سے لاحق خطرات کے خلاف دفاع مہیا کرنا تھا اور یہ کونسل ہی ہے جس نے اس خطے کو ایک بار پھر متحد کیا ہے۔

قطر اور دوسرے خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی اور مقابلے کے باوجود ایران کو ایک سنجیدہ اور واضح خطرہ سمجھنا اور نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن کی صدارت کے دوران آنے والے خارجہ پالیسی چیلینجز نے ان رہنماؤں کو ترغیب دی ہے کہ وہ اپنے اختلافات اور مسائل کو ایک طرف رکھ دیں۔

خلیجی تعاون تنظیم کے درمیان اتحاد کی وجہ ان اہم نکات میں موجود ہے جو ولی عہد نے اجلاس کے شروع میں بیان کیے۔ ایران کا جوہری پروگرام، میزائیل پروگرام اور دہشت گرد گروہوں کے لیے اس کی حمایت۔

حال ہی میں خطے کے ممالک نے ایران کے حوالے سے اپنی حکمت عملی کو بدلا ہے۔ ایسا ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور باہمی تعاون کی کوششوں کی ناکامی کے بعد کیا گیا ہے۔ ایران سے لاحق خطرات اور خلیج تعاون کونسل کے درمیان اختلافات نے خطے کو مزید غیر محفوظ بنا دیا تھا۔

قطر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کا سب سے اہم نکتہ صدر ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس سے رخصتی اور جو بائیڈن کی صدارت کے آغاز کا ہے۔ کئی سالوں سے خطے کے ممالک ایران سے امیدیں ختم کر چکے ہیں اور اسے اپنے لیے سیاسی، معاشی اور سکیورٹی خطرہ سمجھتے ہیں۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ ایک دوسری جوہری ڈیل آنے والے امریکی صدر کے ایجنڈے میں شامل ہے اور اگر خطے کے ممالک ان مذاکرات کا حصہ بننا چاہتے ہیں تاکہ وہ ایران کے میزائل پروگرام اور علاقائی دخل اندازی سے متعلق بات کر سکیں تو انہیں اپنے آپسی اختلافات ختم کرنا ہوں گے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ایران کے جوہری پروگرام کو خطے اور دنیا کے لیے خطرہ قرار دیا ہے۔  اجلاس میں ایران کا واضح تذکرہ یہ ثابت کرتا ہے کہ خطے کے ممالک بائیڈن کے حکومت میں آنے سے قبل اپنے اندرونی اختلافات کو ختم کرنے میں کتنے سنجیدہ ہیں۔

اجلاس میں ان کے درمیان طے پانے والا اتفاق رائے یمن، لیبیا، شام، سوڈان اور عراق سمیت ہر جگہ بہت جلد اپنے اثرات ظاہر کرے گا۔ یہ ان معاملات میں تناؤ کم کرے گا جن میں قطر اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی اور مقابلہ پایا جاتا تھا۔ ان معاملات میں قطر کی ایران اور ترکی کے ساتھ حزب اختلاف کے گروہوں کی حمایت اور میلیشیاز کی پشت پناہی کرنا شامل ہے۔

سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، بحرین اور مصر کے قطر کے ساتھ اختلافات نے ایک طرف تو عرب دنیا کو نقصان پہنچایا ہے لیکن دوسری طرف اس تنازعے کو ختم کرنے کا فیصلہ اس کشیدگی کا ختم کرے گا جس نے سب سے زیادہ ایران کو فائدہ پہنچایا ہے۔

العلا کانفرنس قطر کے ساتھ تنازعے کے حل سے کئیں زیادہ بڑا اجلاس تھا، یہ اس خطے کے مسائل کو حل کرنے کے لیے اہم ہو گا۔


کاملیا انتخابی فرد انڈپینڈنٹ فارسی کی ایڈیٹر انچیف ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر