کیپیٹل پر حملہ: مظاہرین میں ایک درجن سے زائد قانون ساز بھی تھے

اب تک کیپیٹل کی عمارت میں داخل ہونے والے صرف ایک قانون ساز کی نشاندہی ہوئی ہے، جن پر فرد جرم عائد کی گئی اور جنہوں نے استعفیٰ دے دیا۔

بدھ کو  پیش آنے والے واقعے کے بعد 120 افراد کو قانونی کارروائی کا سامنا ہے(فائل تصاویراے ایف پی)

امریکی میڈیا کے مطابق گذشتہ ہفتے امریکی کانگریس کی عمارت کیپیٹل ہل کے باہر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے مظاہرے میں ایک درجن سے زائد قانون ساز بھی شریک تھے۔

خبر رسا ں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق مغربی ورجینیا سے تعلق رکھنے والے ایک ری پبلکن قانون ساز مائیک ازینجر جو، نو منتخب صدر جو بائیڈن کی صدارتی جیت کو ختم کرنے کی حمایت کرنے کے لیے گذشتہ بدھ کو واشنگٹن آنے والے مجمعے میں شامل تھے، نے سوموار کو ایک ریڈیو انٹرویو میں کہا کہ انہیں امید ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ’ہمیں واپس بلائیں گے۔‘

سینیٹر مائیک نے نشریاتی ادارے کو بتایا کہ صدر ٹرمپ کا وفادار ہجوم ’متاثر کن اور محب وطن‘ تھا۔ مغربی ورجینیا میٹرو نیوز سے گفتگو کرتے ان کا مزید کہنا تھا: ’میرے خیال میں صدر نے مقصد کی نشاندہی کی۔ وہ تھا الیکٹورل ووٹوں کو چیلنج کرنے کے لیے کانگریس کے ری پبلکن اراکین پر دباؤ ڈالنا۔‘

مظاہرے میں کم از کم نو ریاستوں سے تعلق رکھنے والے ایک درجن سے زائد قانون سازوں میں مائیک بھی شامل تھے، جو مظاہرے میں اس بے بنیاد دعوے کی حمایت کرنے کے لیے موجود تھے کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی۔

اب تک صرف ایک قانون ساز کی نشاندہی کی جا چکی ہے جو کیپیٹل کی عمارت کے اندر داخل ہوئے تھے جس کے بعد ان پر فرد جرم عائد کیا گیا اور انہوں نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ مظاہرے میں شریک باقی قانون سازوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس مظاہرے میں صرف پرامن طور پر حصہ لیا۔

یہ واضح نہیں ہو سکا کہ مظاہرے کے دوران مائیک کہاں تک پہنچے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے ان مناظر کو ’پرامن‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے کیپیٹل کی سیڑھیوں پر مظاہرین کو جھنڈے لہرانے اس جگہ سے کہیں دور بیٹھے دیکھا جہاں سکیورٹی کی باڑ لگی تھی جسے جلد ہی پر تشدد مظاہرین نے عبور کر لیا۔

انہوں نے انٹرویو میں کہا: ’ہمارے صدر نے ہمیں ڈی سی بلایا تھا۔ مجھے امید ہے کہ وہ ہمیں واپس بلائیں گے۔‘ تاہم انہوں نے اس حوالے سے موقف لینے کے لیے اے پی کی ای میل کا جواب نہیں دیا۔

امریکی ادارے ایف بی آئی نے تمام 50 ریاستوں کے دارالحکومتوں اور واشنگٹن میں 20 جنوری، جو بائیڈن کی حلف برادری کے دن، تک آنے والے دنوں میں مسلح مظاہروں کا انتباہ جاری کیا ہے اور سخت حفاظتی انتظامات کی سفارش کی ہے۔

دوسری جانب ریاست مغربی ورجینیا کے ری پبلکن گورنر جم جسٹس نے اپنے ہی سٹیٹ ہاؤس کے باہر ہونے والے مظاہروں میں تشدد کے خدشے کے بارے میں کہا کہ ’میں امید کرتا ہوں اور دعا گو ہوں کہ مغربی ورجینیا کے شہری ایک بہتر فیصلہ کریں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہاں سخت حفاظتی انتظامات ہوں گے۔‘

شمالی ورجینیا میں لوڈون کاؤنٹی کے دو عہدیداروں نے ری پبلیکن نمائندے ڈیو لاراک سے واشنگٹن میں بدھ کو مظاہرہ کرنے والے ہجوم میں شامل ہونے پر مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ لاراک نے پچھلے ہفتے کہا تھا کہ ’مظاہرین پرامن تھے سوائے ان چند عناصر کے جو ان محب وطن لوگوں میں تشدد کی غرض سے گھس آئے تھے۔‘

لاراک اور ورجینیا کے دو دوسرے قانون سازوں نے گذشتہ منگل کو نائب صدر مائیک پینس کو ایک خط لکھا تھا جس میں ورجینیا میں ہونے والے صدارتی انتخاب کے نتائج کو کالعدم قرار دینے کے لیے کہا گیا تھا۔ اس ریاست میں بائیڈن نے 10 فیصد پوائنٹس سے فتح حاصل کی تھی۔

ریاست کولوراڈو سے نو منتخب ری پبلکن رون ہینکس کا گذشتہ ہفتے ایک ریڈیو انٹرویو میں کہنا تھا کہ وہ بدھ کو وائٹ ہاؤس کے باہر موجود تھے اور صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو ’بھرپور طریقے سے لڑنے‘ کی تاکید کی تھی۔ ان کے مطابق وہ ان مظاہرین کے ساتھ کیپیٹل کی جانب بڑھے جنہوں نے صدر ٹرمپ کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور ’جب وہ عمارت کے پچھلے حصے کے پاس پہنچے جہاں ایک اور میٹنگ تھی تب تک لوگ عمارت میں داخل ہو چکے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مائیک نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد پر الزام لگایا کہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ’امریکی پہچان‘ آئین کی پہلی ترمیم میں دیے گئے حق کے تحت ہونے والے مظاہرے کو مسخ کیا۔ اے پی کے مطابق اس واقعے کے بعد 120 افراد کو قانونی کارروائی کا سامنا ہے جو سب صدر ٹرمپ کے مداح ہیں اور ان میں سے کوئی بھی بائیں بازو سے تعلق رکھنے والا فرد نہیں۔

مائیک کا کہنا تھا: ’میں فیس بک پر لوگوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ کیپیٹل کے باہر میرے بیٹوں کے ساتھ میری تصویر ایف بی آئی کو بھیج رہے ہیں۔ وہ مجھے ہتھکڑیاں لگوانا چاہتے ہیں۔‘ انہوں نے اس پر مزید وضاحت نہیں کی۔

مظاہرے میں شرکت کرنے والے ریاست مغربی ورجینیا کے نمائندے ڈیرک ایونز نے گذشتہ ہفتے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کے ایک دن بعد وفاقی استغاثہ نے ان پر امریکی کیپیٹل میں داخل ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔

انہوں نے ٹرمپ کے حامیوں کے ہجوم کے ساتھ خود کو لائیو نشر کیا تھا۔ ان کے استعفے میں کہا گیا کہ انہوں نے اپنے اقدامات کی مکمل ذمہ داری قبول کی ہے اور انہیں افسوس ہے کہ ’وہ شرمندگی، درد یا تکلیف کی وجہ بنے ہیں۔‘

اگر وہ مجرم ثابت ہوئے تو انہیں ممنوعہ علاقے میں داخلے اور غیر ذمہ دارانہ رویہ روا رکھنے پر ڈیڑھ سال کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ