’پتہ ہوتا تو انشورنس نہ کرتے:‘ ملا منصور کے تین لاکھ کی کہانی

ملا منصور نے 20 سال کی لائف پالیسی حاصل کر رکھی تھی، جب کہ وہ دو سال کے بعد ہی امریکی حملے میں مارے گئے۔

ملا منصور 2016 میں بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوئے تھے (افغان میڈیا)

پاکستانی انشورنس کمپنی انٹرنیشنل جنرل انشورنس (آئی جی آئی) نے تصدیق کی ہے کہ 2016 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے افغان طالبان کے اس وقت کے سربراہ ملا اختر منصور نے ان سے 20 سالہ لائف انشورنس پالیسی لی تھی۔

اس پر سوال اٹھا تھا کہ دہشت گردی کے شبے میں عالمی مطلوبہ شخص انشورنس کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟

انڈپینڈنٹ اردو نے جب یہی سوال ملا اختر منصور کو پالیسی دینے والی کمپنی آئی جی آئی کے قانونی مشیرعلی تھہیم کے سامنے رکھا تو انہوں نے کہا ’اگر ہمیں ایسی معلومات ملیں کہ پالیسی لینے والا فرد دہشت گرد ہے یا کسی مجرمانہ کارروائی میں ملوث ہے تو ہم اس پالیسی کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ انشورنس قانون کے مطابق سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کو مطلع کرتے ہیں اور جب تک متعلقہ اداروں کی وضاحت نہیں آجاتی، ہم کسی کو بھی ادائیگی نہیں کرتے۔‘ 

وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی جانب سے ملا اختر منصور اور ان کے ساتھیوں کے خلاف 2019 میں دہشت گردی میں مالی معاونت کے متعلق درج کیے جانے والے کیس کی کراچی میں انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت میں شنوائی کے دوران گذشتہ ماہ انکشاف ہوا تھا کہ ڈرون حملے میں ہلاکت سے پہلے انھوں نے پاکستان کی ایک نجی انشورنس کمپنی سے جعلی نام اور جعلی شناختی کارڈ پر انشورنس پالیسی لی تھی۔  

علی تھہیم نے ای میل کے ذریعے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا، ’یہ انشورنس پالیسی محمد ولی ولد شاہ محمد، قومی شناختی کارڈ نمبر 54400-0563462-9 کی شناخت سے یکم جون، 2014 کو لی گئی تھی۔ اس پالیسی کے لیے ہم نے بینک الفلاح کی خودکار ڈیبٹ کی سہولت کے ذریعے تین لاکھ روپوں کا پریمیم حاصل کیا تھا۔ یہ پالیسی بینک کی یقین دہانی یا بینک اشورنس پر تھی اور اس پالیسی کے سب طریقہ کار اور مطلوبہ احتیاط یعنی پروسیجر اینڈ ڈیو ڈلیجنس بینک کی جانب سے ادا کیے گئے تھے۔‘ 

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ملا منصور نے 20 سال کے لیے پالیسی حاصل کر رکھی تھی جب کہ وہ دو سال کے بعد ہی امریکی حملے میں مارے گئے۔

آئی جی آئی نے ان کی ہلاکت کے بعد انشورنس کی کتنی رقم ادا کی؟ اور یہ ادائیگی کس کو اور کب کی گئی؟ والے سوال کے جواب میں علی تھہیم نے کہا: ’ہماری کمپنی کو عدالت نے 18 نومبر، 2020 کو ہدایت کی تھی کہ ملزم ملا اختر عرف محمد ولی ولد شاہ محمد کی انشورنس پالیسی کی رقم عدالت میں جمع کرائی جائے۔ ہم نے عدالت کے حکم کی تکمیل کرتے ہوئے 12 دسمبر، 2020 کو 347,946 روپوں کی رقم عدالت میں جمع کرا دی۔‘ 

ایک سوال کے جواب میں علی نے بتایا کہ یہ پالیسی یکم جون، 2014 سے 20 سال کے لیے یکم جون، 2034 تک کی تھی جس کا سالانہ پریمیم ایک لاکھ روپے تھا۔   

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مئی 2016 میں افغان طالبان کے اس وقت کے سربراہ ملا اخترمنصور ایران سے براستہ بلوچستان پاکستان میں داخل ہونے کے بعد دالبندین کے ایک مقامی ریستوران سے دوپہر کا کھانا کھا کرایک ٹیکسی میں روانہ ہوئے اور چند کلومیٹر دور امریکی ڈرون حملے میں ڈرائیور سمیت مارے گئے۔ 

ڈرون حملے کے جائے وقوع کے قریب ملا اختر منصور کے دو جعلی پاکستانی شناختی کارڈ برآمد ہوئے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کی تفتیش میں بتایا گیا کہ جائے وقوع سے ملنے والے پاکستانی شناختی کارڈ پر محمد ولی ولد شاہ محمد اور گل محمد ولد سعید امیر علی کے نام درج تھے اور ان شناختی کارڈز کے کوائف ملا اختر منصور کے شناختی کارڈ کے کوائف سے ملتے ہیں۔  

ایف آئی اے کی ایک رپورٹ کے مطابق ملا منصور کے کراچی کے پوش علاقوں گلشنِ معمار، گلزارِ ہجری اور شہیدِ ملت روڈ پر واقع ایک گھر، پلاٹ اور چار فلیٹوں سمیت چار کروڑ پانچ لاکھ روپے سے زائد کے اثاثے برآمد کیے گئے تھے۔   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان