عربی زبان کی لازمی تعلیم: اتنے اساتذہ کہاں سے آئیں گے؟

سینیٹ میں عربی زبان کی لازمی تعلیم کو چھ ماہ میں ممکن بنانے کے بل کی منظوری تو دے دی گئی، مگر اکثر ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی تعداد میں عربی کے ماہر اساتذہ ہی نہیں۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں اول سے پانچویں جماعت تک عربی زبان پڑھائی جائے جبکہ جماعت ششم سے 11ویں تک عربی گرامر پڑھائی جائے(اے ایف پی فائل)

پاکستان کی سینیٹ نے رواں ہفتے دارالحکومت اسلام آباد کے تعلیی اداروں میں عربی زبان کی تعلیم کو لازمی کرنے کا بل منظور کیا اور اس کے نفاذ کو چھ ماہ کا وقت دیا۔

’عربی زبان کی لازمی تعلیم کا بل 2020‘ پیر کو سینیٹ میں منظور ہوا اور دارالحکومت کے تمام سکولوں میں نافذ العمل ہو گا، تاہم اس کے قانون کے طور پر نافذ ہونے سے قبل اسے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم میں اور پھر قومی اسمبلی میں منظور ہونا ہو گا۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں اول سے پانچویں جماعت تک عربی زبان پڑھائی جائے جبکہ جماعت ششم سے 11ویں تک عربی گرامر پڑھائی جائے اور متعلقہ وزیر چھ ماہ میں اس بل پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں گے۔

لیکن کیا سکولوں کے لیے کورس مرتب کرنا، اساتذہ بھرتی کرنا اور لازمی عربی کلاسیں شروع کرنا محض چھ ماہ میں ممکن ہو گا؟ ان سوالوں کے جواب کے لیے تعلیمی شعبے سے تعلق رکھنے والے مختلف ماہرین سے رابطہ کیا جن کا اس حوالے سے ملا جلا جواب رہا۔

ان کا کہنا تھا: ’زبان کو نصاب کے طور پڑھانا الگ ہے اور بطور زبان پڑھانا الگ معاملہ ہے۔ عربی کو بطور زبان پڑھانے کے لیے ہمیں عربی کے گریجویٹس درکار ہیں جن کو زبان کی گرامر پر مکمل عبور حاصل ہو۔‘

فوزیہ ایوب کے مطابق: ’یہ زیر زبر پیش کا معاملہ نہیں ہے، بچوں کے لیے کورس بنانا اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت بڑا چیلنج ہے کہ پڑھانے والے کہاں سے آئیں گے؟ کسی بھی زبان پر عبور حاصل کرنے کے لیے چھ ماہ ناکافی ہیں۔‘

دار ارقم سکول سسٹم کی پرنسپل سعدیہ منیر نے کہا کہ یہ چھ ماہ کا نہیں بلکہ سالوں کا منصوبہ ہونا چاہیے۔ ’یہ کیسے ممکن ہے ایک بچہ جس نے پرائمری تک عربی زبان نہیں پڑھی، وہ ششم سے عربی پڑھنا شروع کر دے؟ اس کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہو گی۔‘

انہوں نے کہا کہ زبان لازمی قرار دیے جانے پر انہیں کوئی تخفظات نہیں ہیں کیونکہ جب انگریزی کو ترجیح دی جا سکتی ہے تو عربی کو بھی دی جا سکتی ہے لیکن زیادہ مشکل ہے اتنے کم وقت میں اپنے سکولوں میں عربی زبان کے ماہر  بھرتی کرنا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پرنسپل سعدیہ منیر نے کہا: ’چھ ماہ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے ناکافی ہیں اور پرائمری تک جو ٹیچرز سکولوں میں پڑھا رہے ہیں ان کی اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ عربی پڑھا سکیں۔ جبکہ گرامر والی عربی پڑھانے کے لیے بھی ماہر کی ضرورت ہو گی۔‘

ان  کا کہنا تھا: ’لگتا ہے حکومت کو خود سمجھ نہیں آ رہی کہ کیا کرنا ہے اور کیسے کرنا ہے۔ یہ نافذ العمل ہے، ناممکنات میں سے نہیں ہے، لیکن یہ کہنا کہ چھ ماہ میں سب ہو جائے یہ ناممکن سی بات ہے۔‘

دوسری جانب اسلام آباد کے کورڈوبا سکول سسٹم کی پرنسپل کشور عقیل نے کہا کہ اس بل پر عمل درآمد کے لیے چھ ماہ کا عرصہ کافی ہے اور اس میں مشکل کچھ نہیں، تاہم ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ عربی زبان کی تعلیم کو لازمی قرار دینے کی بجائے طلبہ کے لیے اختیاری ہونا چاہیے تھا۔

انہوں نے کہا: ’طلبہ کے پاس اس کا فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہیے، خاص طور جو غیر مسلم طلبہ ہیں، ان کے لیے کوئی متبادل مضمون ضرور ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ نہ پڑھنا چاہیں تو ان کو عربی پڑھنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔‘

پرنسپل کشور عقیل کا مزید کہنا تھا جب وہ طالبہ تھیں تب ان کے سکول میں مسلم طلبہ کے لیے عربی جبکہ غیر مسلم طلبہ کے لیے اخلاقیات کا مضمون متبادل کے طور پہ موجود ہوتا تھا۔

اپنے سکول میں عربی کے اساتذہ کی بھرتی کے بارے میں انہوں نے کہا عربی پڑھانے کے لیے نئے استاد لانا تو ممکن نہیں پہلے سے موجود اساتذہ کو عربی کے تازہ کریش کورسز کروائے جائیں گے جو چھ ہفتے کا بھی ہو سکتا ہے۔ ان کے بقول کورسز  کر کے وہی ٹیچرز عربی کا مضمون پڑھا سکیں گے۔

دوسری جانب میٹرو پولیٹن سکولز اینڈ کالجز کی پرنسپل فوزیہ ایوب نے اس حکومتی اقدام کو بہت بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں سمجھتیں کہ چھ ماہ کا عرصہ کریش کورسز کے لیےکافی ہے۔

 

سینیٹ میں بحث

جب یہ بل سینیٹ میں پیش ہوا تو بھی اجلاس میں اس پر ملی جلی رائے آئی لیکن اکثریت نے اس کے حق میں ووٹ دیا۔

مسلم لیگ ن کے سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ عربی دنیا کی پانچویں بڑی زبان ہے اور 25 ممالک کی سرکاری زبان ہے۔ ’ہمارےلوگوں کو عربی زبان آئے گی تو مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بہت زیادہ پاکستانیوں کو نوکریاں ملنے کے مواقع ملیں گے۔ ‘

حکومتی جماعت پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے پارلیمانی امور کے وزیر علی محمد خان نے اس بل پر رائے دیتےہوئے کہا تھا کہ اس کے ساتھ پورا پاکستان کھڑا ہے۔

جبکہ پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ عربی لازمی نہیں بلکہ آپشنل مضمون ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عربی کو لازمی زبان بنانے کا اسلام، قران اور دو قومی نظریے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

اس بل سے متعلق بعض لوگ یہ سوال بھی اٹھاتے ہیں کہ جب تحریک انصاف کی حکومت تمام ملک میں یکساں نظام تعلیم متعارف کروانے کی کوشش کر رہی ہے تو محض اسلام آباد تک اس مضمون کو نافذ کرنے سے اس پر اس کا کیا اثر ہوگا۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس