پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: کیا پاکستان وائٹ واش کرسکے گا؟

راولپنڈی کرکٹ گراؤنڈ میں جمعرات سے پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیریز کا دوسرا ٹیسٹ شروع ہو رہا ہے۔ کراچی ٹیسٹ کے لیے اعلان کردہ 17 رکنی سکواڈ کو ہی دوسرے ٹیسٹ کے لیے برقرار رکھا گیا ہے۔

دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیےپنڈی کرکٹ  گروانڈ کی تیاری جاری ہے (اے ایف پی)

پاکستان کراچی ٹیسٹ جیت کر اس وقت سیریز میں برتری حاصل کر چکا ہے اور کراچی ٹیسٹ کی کارکردگی کی بنیاد پر دوسرا ٹیسٹ جیتنے کے لیے فیورٹ ہے۔ یہ جنوبی افریقہ کے خلاف پاکستان کی ٹیسٹ سیریز کی 17 سال بعد کامیابی ہوگی۔

جنوبی افریقہ ٹیم کی کارکردگی توقعات کے برعکس خاصی غیرمعیاری رہی ہے اگر عمیق نگاہوں سے جائزہ لیا جائے تو پروٹیز نے پہلا ٹیسٹ سنجیدگی سے کھیلا ہی نہیں۔ دونوں اننگز میں بیٹنگ میں کسی بھی بلے باز نے ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا۔

دوسری اننگز میں مارکرم  وان دا ڈوسن اور بووما نے کسی حد تک وکٹ پر رکنے کی کوشش کی تاہم وہ ایک اچھی اننگز کھیلنے کے بعد سپن بولنگ کے جال میں پھنس گئے۔

کپتان کوئنٹن ڈی کوک نے سب سے زیادہ غیر ذمہ دارارانہ بیٹنگ کی اور کسی بھی مرحلہ پر فائٹ کی کوشش نہیں کی جبکہ تجربہ کار فاف ڈوپلیسی کی بلے بازی کسی نچلے سطح کے کلب کرکٹر سے بھی بدتر تھی ڈین ایلگر بھی کچھ زیادہ نہ کرسکے۔

بولنگ میں ربادا اپنی شہرت کے برعکس بالکل آف کلر نظر آئے جبکہ باقی بولرز کی بولنگ ٹیسٹ کرکٹ کے معیار کی ہرگز نہیں تھی۔ ان پر تنقید بلاجواز ہوگی کیونکہ وہ کسی بھی طرح ورلڈ کلاس بولرز نہیں ہیں۔

شاید یہ جنوبی افریقہ کی تاریخ کی کمزور ترین ٹیم ہے !!!

پاکستان ٹیم کی بیٹنگ اگرچہ کچھ مسائل کا شکار رہی اوپننگ کا مسئلہ جوں کا توں ہے ریگولر اوپنرز ہوم سیریز میں جس طرح ناکام ہو رہے ہیں وہ حیرت انگیز ہے۔

پاکستان کے سپنرز اور فواد عالم کی بیٹنگ نے پاکستان کو کراچی میں کامیابی تو دلا دی لیکن پاکستان کو اس جیت کے باوجود اپناجائزہ لینا ہوگا کہ ٹیم اس طرح کیوں نہیں کارکردگی دکھا سکی جیسے دوسری ٹیمیں ہوم سیریز میں دکھاتی ہیں

راولپنڈی ٹیسٹ

راولپنڈی میں پاکستان ٹیم نے اپنا سکواڈ وہی برقرار رکھا ہے جو کراچی میں تھا۔ اوپنرز کے تبدیل ہونے کے جواز تاہم موجود ہیں لیکن عام طور پر ایک کامیاب کمبینیشن کو چھیڑا نہیں جاتا ہے۔

عابد علی گذشتہ چھ اننگز میں مسلسل ناکام رہے ہیں۔ خوش قسمت ہیں کہ اب تک ٹیم میں موجود ہیں حالانکہ اس طرح کی کارکردگیپر شان مسعود باہر ہوچکے ہیں۔

دوسرے اوپنر عمران بٹ اگرچہ ایک اچھے بلے باز ہیں لیکن اوپنر کی حیثیت سے ان میں ٹھہراؤ اور صبر کی کمی ہے۔

اظہر علی اور فواد عالم مڈل آرڈر میں اچھی فارم میں ہیں البتہ کپتان بابر اعظم کا کراچی میں دونوں اننگز میں ایک دوسرے درجہ کے سپنر مہاراج کو وکٹ دینا ناقابل فہم ہے۔

ایک اور تجویز ہے کہ پاکستان ایک سپنر کو ڈراپ کر کے کامران غلام یا سعود شکیل کو بیٹنگ لائن میں جگہ دے۔ کسی نئے بلے باز کا کیرئیر بنانے کے لیے ہوم سیریز بہت اہم ہوتی ہے اور پاکستان کو اس کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

جنوبی افریقہ کی ٹیم بھی شاید کوئی تبدیلی نہ کرے ایک ٹیسٹ میچ میں شکست کے بعد کسی تبدیلی کا عنصر موجود ہونے کے باوجود پروٹیز اسی ٹیم کے ساتھ ہی میدان میں اترے گی کیونکہ اس کے بینچ پلئیرز میں کوئی خاص کمک موجود نہیں ہے جس کو شامل کیا جاسکے۔

17 کھلاڑیوں کا اعلان

اوپنرز: عابد علی (سینٹرل پنجاب) اور عمران بٹ (بلوچستان)

مڈل آرڈر بیٹسمین: اظہر علی (سینٹرل پنجاب) ، بابر اعظم (کپتان، سینٹرل پنجاب) ، فواد عالم (سندھ) اور سعود شکیل (سندھ)

آلراؤنڈرز: فہیم اشرف (سنٹرل پنجاب) اور محمد نواز (ناردرن)

وکٹ کیپرز: محمد رضوان (نائب کپتان، خیبر پختونخوا) اور سرفراز احمد (سندھ)

سپنرز۔ نعمان علی (ناردرن) ، ساجد خان (خیبر پختونخوا) اور یاسر شاہ (بلوچستان)

 فاسٹ باؤلرز: حارث رؤف (ناردرن) ، حسن علی (سینٹرل پنجاب) ، شاہین شاہ آفریدی (خیبر پختونخوا) اور تابش خان (سندھ)۔

پنڈی گروانڈ

1993 میں ٹیسٹ سینٹر کا اعزاز حاصل کرنے والے راولپنڈی کرکٹ گراؤنڈ میں اب تک 10 ٹیسٹ میچز کھیلے جاچکے ہیں جن میں سے چار پاکستان نے جیتے جبکہ تین میں اسے شکست ہوئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس گراؤنڈ پر جنوبی افریقہ 1997 میں ایک ٹیسٹ کھیل چکا ہے جو ڈرا ہو گیا تھا۔

پاکستان نے آخری دفعہ یہاں ٹیسٹ 2020 میں بنگلہ دیش کے خلاف کھیلا تھا جس میں مہمان ٹیم کو ایک اننگز اور 44 رنز سے شکست ہوئی تھی۔ میچ کی خاص بات نسیم شاہ کی ہیٹ ٹرک اور بابر اعظم اور شان مسعود کی سنچریاں تھیں۔

پچ رپورٹ

راولپنڈی کی پچ روایتی طور پر فاسٹ بولنگ کو مدد دیتی ہے۔ وکٹ پر باؤنس تو زیادہ نہیں ہوتا لیکن پچ پر گھاس اور ہوا میں نمی سے بولرز کو مدد ملتی ہے۔ اگر پاکستان انتطامیہ نے گھاس برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تو پاکستان یقینی طور پر چار فاسٹ بولرز کے ساتھ کھیلے گا۔ لیکن اس کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ پروٹیز بولرز ایک گرین وکٹ پر پاکستانی بلے بازوں کا امتحان بن سکتے ہیں۔ اس لیے مینیجمنٹ ایک سپاٹ بیٹنگ وکٹ کا فیصلہ ہی کرے گی تاکہ اگر جیت نہیں تو ڈرا تک میچ لیجا سکیں۔

سیریز وائٹ واش

جنوبی افریقہ کی ٹیم کی حالیہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے شائقین کرکٹ کو امید ہو چلی ہے کہ پاکستان ٹیم دونوں ٹیسٹ جیت کر وائٹ واش کر دے گی۔ اگرچہ پاکستان کی بیٹنگ بھی کچھ زیادہ خاص نہیں رہی ہے لیکن پاکستان کی بولنگ پروٹیز سے بہت بہتر ہے اور اسی کے سہارے پاکستان مزید جیت کا خواب دیکھ رہا ہے۔

پاکستان نے اب تک پانچ دفعہ وائٹ واش  کیا ہے جس میں آخری دفعہ 2012 میں انگلینڈ کے خلاف عرب امارات سیریز میں وائٹ واش کیا تھا۔

جنوبی افریقہ کی ٹیم اپنی کمزوریوں کے باوجود باؤنس بیک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اگر پچ فاسٹ بولنگ کے لیے موزوں ہوئی تو میچ کا نتیجہ پاکستان کی توقعات کے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔

جنوبی افریقہ کی ٹیم کے لیے یہ ٹیسٹ موسم گرما سے پہلے آخری میچ ہوگا کیونکہ آسٹریلیا نے اگلے دنوں میں ہونے والے دورے کو کورونا کے باعث منسوخ کر دیا ہے۔ تاہم کرونا (کورونا) کی سنگین صورت حال کے باوجود انگلینڈ بھارت کے دورے پر ہے۔ جنوبی افریقہ بورڈ نےاس منسوخی پر سخت مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

راولپنڈی ٹیسٹ اس لحاظ سے بھی بہت اہمیت کا حامل ہے کہ اس میچ کے بعد کوچ مصباح الحق اور وقار یونس کی قسمت کا فیصلہ بھی ہونا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ