پی ڈی ایم کی ناکامی کی چار وجوہات

راستہ وہی ایک ہے: قومی سیاسی مذاکرات جہاں نظام ٹھیک کرنے پر بات ہوگی اور نظام کی تبدیلی کے لیے اقدام کیے جائیں گے۔

اسلام آباد میں الیکشن کمیشن کے سامنے پی ڈی ایم کے احتجاج کا ایک منظر(اے ایف پی)

یہ تحریر آپ یہاں مصنف کی آواز میں سن بھی سکتے ہیں

 


پی ڈی ایم ایسا لگتا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ کی سب سے ناکام تحریک بننے جا رہی ہے۔

یہ سیاسی اتحاد نہ عوام کو اپنے ساتھ ملا سکا، نہ اسٹبلشمنٹ پر کسی قسم کا دباؤ ڈال سکا اور نہ حکومت کو کسی بات پر مجبور کر سکا۔ اگر اس اتحاد کے قیام کے فورا بعد میں نے کہا تھا کہ پاکستان کی سیاست تین دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک دھڑا لسانی مذہبی جماعتوں کا اتحاد پی ڈی ایم، دوسرا اسٹبلشمنٹ کا حکومتی اتحاد اور تیسرا دھڑا عوام۔

آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ پی ڈی ایم کی پارٹیوں کو اکھٹا کرنے میں میرا بھی کردار تھا مگر جب ان کا 26 نکات کا اعلامیے آیا تو میں نے ان سے لاتعلقی کا اعلان اس لیے کیا کہ صاف ظاہر تھا نظام کی بہتری کے بجائے پی ڈی ایم حصول اقتدار کی تحریک رہ گئی تھی۔

پی ڈی ایم کی تمام پارٹیوں کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ عوام کی حمایت کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتے اور وہ اس وقت تک حمایت نہیں کرے گی جب تک نظام کی اصلاحات ان کے منشور کا حصہ نہ ہو۔ اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کے پی ڈی ایم کی ناکامی کی وجوہات کیا ہیں۔

سب سے پہلی وجہ پیپلز پارٹی ہے۔ میں وہ پہلا شخص تھا جس نے پیپلز پارٹی کو بہت پہلے حکومت کے سہولت کار کا لقب دیا۔ یہی نہیں موجودہ پیپلز پارٹی اسٹبلمشنٹ کی ایک اہم اتحادی ہے اور بلوچستان کی منتخب حکومت گرانے سے لے کر سینٹ کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں دینے اور پی ڈی ایم کو کنٹرول کرنے کا کام کیا ہے۔

پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی ہی واحد جماعت ہے جس کی ایک بڑے صوبے میں حکومت ہے اور انہیں مرکز کے ساتھ کام کرنا پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم میں شامل نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ پیپلز پارٹی کو اس اتحاد سے باہر رکھا جاتا اور ان سے اس بات پر سمجھوتہ ہوتا کہ ہر اہم فیصلے کے بعد ان کی حمایت حاصل کی جائے گی۔

آج بھی پیپلز پارٹی کو اتحاد سے الگ کر دینا چاہیے۔ یہ ایک دھچکہ تو ہوگا مگر پی ڈی ایم اس کے بعد اگر باقی پارٹیوں میں مکمل اتحاد ہو تو اپنے مقاصد حاصل کر سکتی ہے۔

پی ڈی ایم کی ناکامی کی دوسری وجہ مسلم لیگ ن کا ذہنی انتشار اور بیانیہ کا تضاد ہے۔ جب میاں نواز شریف نے دو جنرلوں کا نام لے کر تمام انجینرنگ کا ذمہ دار قرار دیا تو وہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ صرف یہی نہیں بلکہ میاں نواز شریف کے بیانیے کا دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ انہیں ادارے سے کوئی اختلاف نہیں بلکہ دو جنرلوں پر غصہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ ایک انہونی بات تھی اور ہم نے بار بار مسلم لیگ نواز سے یہ پوچھا کہ اگر جنرل باجوہ ہی ذمہ دار تھے تو ایکسٹنشن قانون کی حمایت کیوں کی۔ اس سوال کا جواب کبھی نہ ملا بلکہ جب مسلم لیگ ن کے گھر لاہور میں جلسہ ہوا تو نام لینے کی بھی ہمت نہ ہوئی۔

پی ڈی ایم اگر کامیاب ہونا چاہتی ہے تو مسلم لیگ ن کو اپنا ذہنی انتشار ختم کرنا ہوگا۔ اس وقت تاثر یہ ہے کہ نواز شریف ذاتی انتقام میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں لیکن فوج کی سیاست میں مداخلت پر کوئی زیادہ پریشانی نہیں ہے۔ پی ڈی ایم ایک طرف فوج کی سیاست میں مداخلت کے خلاف ہے اور دوسری طرف فوج سے ہی مذاکرات بھی کرنا چاہتی ہے اور انہی سے حکومت کی حمایت نہ کرنے کی درخواست بھی کرتی ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ بحیثیت تنظیم ان میں کمزوری نظر آئی۔ اس اتحاد کا سربراہ بھی ہے، عہدیدار بھی ہیں اور سیکریٹری اطلاعات بھی ہیں۔ مگر نہ سربراہ کی کوئی وقعت ہے اور نہ کوئی دوسرا عہدیدار اپنا کام کر رہا ہے۔ ہر پارٹی اپنے طور پر فیصلے کر رہی ہے اور ان کا اعلان کر رہی ہے۔ ایسے غیر منظم اتحاد  کی وجہ سے عوام بھی ان میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہے۔ 

چوتھی وجہ ان کی ناکامی کی یہ ہے کہ ان کا سیاسی منشور عوامی نہیں ہے۔ ان کا مطالبہ یہ ہے کہ حکومت ہٹاؤ اور ہمیں لاؤ۔ اصلاحات بھی انہیں صرف الیکشن قوانین میں چاہیے جبکہ نظام کی دوسری خرابیاں ان کے لیے زیادہ اہم نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کے عوام ان کے اتحاد سے لاتعلق رہی اور صرف ان کی پارٹیوں کے جیالے اس میں شریک ہوتے رہے۔ انہوں نے میثاق پاکستان کا اعلان کیا جس میں کوئی عوامی مفاد نظر نہ آیا۔
اس وقت حکومت اور اسٹبلشمنٹ جس طرح دنیا بھر میں پاکستان کی بدنامی کا باعث بنے ہیں وہ بھی یہ ثابت کر رہا ہے کہ یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا اور اگر ملک بچانا ہے تو ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ عوام اس وقت اسٹبلشمنٹ کو ہی اپنے اور ملک کے مسائل کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ 

راستہ وہی ایک ہے: قومی سیاسی مذاکرات جہاں نظام ٹھیک کرنے پر بات ہوگی اور نظام کی تبدیلی کے لیے اقدام کیے جائیں گے۔ اسٹبلشمنٹ اور پی ڈی ایم دونوں سے نہ صرف عوام ناراض ہے بلکہ انہیں اپنے تمام مسائل کی جڑ سمجھتی ہے۔ اگر قومی سیاسی مذاکرات نہ ہوئے تو پھر خونی انقلاب ہی تبدیلی لائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ