پشاور: سرکاری ہسپتال 800 ملازمین کو کیوں نکالنا چاہتا ہے؟

خیبر پختوںخوا میں خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں کام کرنے والے آٹھ سو کے قریب سول ملازمین، جو محکمہ صحت سے ڈیپوٹیشن پر اسی ہسپتال میں کام کرتے تھے، کو واپس بھیجنے اور ان کو محکمہ صحت میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے کوئی پلان سامنے نہیں آیا ہے۔

خیبر ٹیچنگ ہسپتال نے محکمہ صحت کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ وہ ہسپتال میں کام کرنے والے 800 کے قریب سول ملازمین کو دوبارہ محکمہ صحت بھیجنا چاہتے ہیں (تصویر: پی ٹی آئی ٹوئٹر اکاؤنٹ)

خیبر پختوںخوا کے دوسرے بڑے سرکاری مرکز صحت خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں کام کرنے والے 800 کے قریب سول ملازمین، جو محکمہ صحت سے ڈیپوٹیشن پر اسی ہسپتال میں کام کرتے تھے، کو واپس بھیجنے اور ان کو محکمہ صحت میں ایڈجسٹ کرنے کے لیے ابھی تک حکومت کی طرف سے کوئی پلان سامنے نہیں آیا ہے۔

صوبے میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد سرکاری ہسپتالوں کو خود مختار بنانے کے لیے 2015 میں میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ ایکٹ (ایم ٹی آئی ایکٹ) قانون اسمبلی سے پاس کرایا گیا تھا، جس کے تحت صوبے کے تمام ٹیچنگ ہسپتالوں کو خود مختار بنایا گیا اور انہیں بورڈ آف گورنرز کے تحت چلانے کی منظوری دی گئی تھی۔

اس وقت حکومت کی طرف سے محکمہ صحت میں کام کرنے والے ملازمین کو آپشن دیا گیا کہ اگر وہ ان ہسپتالوں میں ملازمت کرنا چاہتے ہیں تو ان کو وہاں پر بھیجا جا سکتا ہے، جس کے بعد محکمہ صحت کے مختلف ملازمین ان ہسپتالوں میں چلے گئے تاہم یہ ملازمین صوبائی سول ملازمین کے قوانین کے تحت کام کرتے تھے جبکہ ان کو تنخواہ اور دیگر مراعات بھی صوبائی ملازمین کے قوانین  کے مطابق ملتے رہے۔

ان ملازمین میں سے 800 کے قریب خیبر ٹیچنگ ہسپتال چلے گئے تھے۔ اب ہسپتالوں کے لیے آگے جا کر ان ملازمین کی طرف سے مختلف مسائل آنے شروع ہو گئے، جس میں بنیادی مسئلہ ہسپتال کے قوانین کا ان سول ملازمین پر اطلاق تھا، کیونکہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت تمام ہسپتالوں کے الگ قوانین ہیں جو باقی سرکاری ملازمین کے قوانین سے مختلف ہیں۔

خیبر ٹیچنگ ہسپتال نے محکمہ صحت کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ وہ ہسپتال میں کام کرنے والے 800 کے قریب سول ملازمین کو دوبارہ محکمہ صحت بھیجنا چاہتے ہیں اور محکمہ صحت کو اس حوالے سے پیشگی کام کرنا چاہیے۔

ذرائع کے مطابق ہسپتال کی جانب سے اس فیصلے کا تعلق اسی ہسپتال میں حالیہ دنوں میں آکسیجن کی کمی کا واقعہ پیش آنا تھا، جس کے نتیجے میں سات مریضوں کی ہلاکت واقع ہوئی تھی۔

اس واقعے کی تحقیقات ہسپتال کے بورڈ آف گورنرز نے کروائی، جس میں کچھ ملازمین کو نوکری سے برخواست جبکہ وہ ملازمین جو محکمہ صحت سے ڈیپوٹیشن پر تھے، ان کو واپس محکمہ صحت بھیج دیا گیا۔

ہسپتال کے ایک اعلیٰ افسر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک طرف تو یہ سول ملازمین ہسپتال میں ملازمت کرتے تھے لیکن بہت سی جگہوں پر ان پر ہسپتال کے قوانین لاگو نہیں کیے جا سکتے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے ہسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر کو واقعے کا ذمہ دار  ٹھہرایا  اور ان کے خلاف چارج شیٹ محکمہ صحت کو بھیج دی لیکن ہم خود ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر سکتے تھے کیونکہ وہ محکمہ صحت کے ملازم تھے اور ان پر صوبے کے دیگر سرکاری ملازمین کے لیے بنا ڈسپلنری ایکشن قانون لاگو نہیں ہوتا ہے۔

اسی افسر نے بتایا کہ ’اب ہماری ہی چارج شیٹ کے اوپر ہمارے ہسپتال کے اپنے ملازم مختلف مواقع پر بلائے جاتے ہیں کیونکہ سول ملازمین کے خلاف کارروائی کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے اور زیادہ تر مواقع پر ملازم عدالت جا کر ریلیف حاصل کر لیتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’ماضی میں ایسا بھی ہوا ہے کہ خراب پرفارمنس کی وجہ سے ملازمین میں سے کچھ کو ہم نے دوبارہ محکمہ صحت بھیجا لیکن محکمہ صحت والے ان ملازمین کو واپس لینے سے اس وجہ سے انکار کرتے ہیں کہ ان کے پاس خالی اسامی موجود نہیں جس پر ان کو واپس لیا جا سکتا۔‘

ہسپتال کے ایک سینیئر اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ 800 ملازمین کو واپس محکمہ صحت بھیجنے کا فیصلہ اگست 2020 میں ایم ٹی آئی ہسپتالوں کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین نوشیروان برکی کی ایک پالیسی کے نیتجے میں کیا گیا ہے۔

اس پالیسی (جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے) میں کہا گیا ہے کہ بورڈ آف گورنرز کو مختلف مواقع پر شکایات موصول ہو رہی ہیں کہ ایم ٹی آئی قوانین کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں۔

پالیسی میں واضح طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ ایسی شکایات کو ختم کرنے کے لیے ہسپتال میں آئندہ جتنے بھی ملازمین بھرتی کیے جائیں گے، وہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت بھرتی ہوں گے اور اگر کوئی سرکاری ملازم چاہتا ہے کہ ہسپتال میں ملازمت کرے تو ان کو باقاعدہ شائع شدہ اشتہار کے تحت اپلائی کرنا اور سلیکشن  کے بعد سرکاری ملازمت سے استعفیٰ دینا ہوگا۔

پالیسی کے مطابق سرکاری ملازم کی سیلیکشن کے بعد وہ ڈیپوٹیشن پر کسی بھی صورت میں ہسپتال میں ملازمت نہیں کرسکے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پالیسی میں یہ بھی لکھا ہے کہ کچھ مواقع پر سرکاری ملازمین کو اپنے محکمے سے چھٹی لے کر ہسپتال میں ملازت دی گئی ہے جو خلاف قانون ہے اور ان کو صرف ڈیپوٹیشن پر تین سال کے لیے بھرتی کیا جا سکتا ہے۔

دوسرے اداروں سے ڈیپوٹیشن پر بھرتی کرنے کے لیے پالیسی میں درج ہے کہ پہلی فرصت میں تو ہسپتال میں ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت ملازمین بھرتی کیے جائیں گے، تاہم اگر بورڈ آف گورنرز نے کسی ملازمت کے لیے اشتہار دے دیا اور ہسپتال  کو کوئی اہل شخص اس پوسٹ کے لیے نہیں ملا تو ضرورت کی صورت میں وہ محکمہ صحت سے ملازمین لے سکتے ہیں، جن پر سول سروس قوانین لاگو ہوں گے۔

ہسپتال کے سینیئر اہلکار نے یہ بھی بتایا کہ دوسری وجہ ہسپتال کے ساتھ سنگل لائن بجٹ کی ہے، یعنی ان کے پاس اگر کسی شعبے میں آٹھ  گریڈ کے 16 ملازمین کی گنجائش ہے تو وہ اس پر دس ملازمین بھرتی نہیں کرسکتے اور نہ ہی یہ کرسکتے ہیں کہ اگر یہ ملازم مستقبل میں گریڈ 17 پر پروموٹ ہو جائیں تو ہسپتال ان کو گریڈ 17 کی تنخواہ اور مراعات دے دیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’محکمہ صحت والے وہ ملازمین جو ہسپتال میں کام کرتے ہیں، کو پروموٹ کرتے ہیں جو ہسپتال پر بوجھ بن جاتا ہے کیونکہ ہم جس ترتیب سے بھرتیاں کرتے ہیں وہ سول سروس قوانین سے الگ ہے۔ یہاں ہم محکمہ صحت سے آنے والے ایک ڈاکٹر کو دو لاکھ سے اوپر تنخواہ دیتے ہیں تاہم اسی تنخواہ میں ہم دو ملازمین رکھ سکتے ہیں، جن کی پروموشن ہسپتال کے قوانین کے مطابق کریں گے۔‘

خیبر ٹیچنگ ہسپتال کی ترجمان سیدہ عالیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہسپتال کی جانب سے یہ خط بطور انٹیمیشن محکمہ صحت کو لکھا گیا ہے تاکہ وہ مستقبل کے لیے ان ملازمین کو دوبارہ ایڈجسٹ کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

عالیہ نے بتایا کہ ایسا نہیں ہے کہ ’ہم ان سارے 800 ملازمین کو دوبارہ بھیج رہے ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر ملازمین کی ہسپتال کو ضرورت ہے اور وہ ہسپتال ہی میں کام کریں گے لیکن ہم چاہتے ہیں کہ مرحلہ وار یا وقتاً فوقتاً اگر ان میں سے کسی ملازم کو دوبارہ محکمہ صحت کو بھیجتے ہیں تو محکمہ صحت ان کو کسی دوسری جگہ پر ایڈجسٹ کر سکیں گے۔‘

’ہم 800 ملازمین کو واپس نہیں بھیج رہے ہیں۔ ہم شاید دس بھیجیں یا 20، لیکن ہم نے یہ خط  محکمہ صحت کو بھیجا ہے تاکہ وہ اس حوالے سے اپنے لیے پالیسی بنا سکے۔‘

عالیہ سے جب پوچھا گیا کہ ملازمین کو نکالنے کے بعد کیا ہسپتال مزید لوگوں کو بھرتی کرے گا؟ تو اس کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ ضرورت کے مطابق ہسپتال کو جب بھی ضرورت ہوتی ہے اس کے مطابق بھرتیوں کے لیے اشتہار دیتے ہیں اور ملازمین کو بھرتی کرتے ہیں۔

اس سارے معاملے پر صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ہسپتال نے ملازمین کو محکمہ صحت واپس بھیجنے کا نوٹیفکیشن اور فیصلہ واپس لے لیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے اس مسلے پر مزید تبصرہ نہیں کیا۔

تاہم ہسپتال کی ترجمان عالیہ نے بتایا کہ ابھی تک ان کے علم میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ ہسپتال انتظامیہ نے یہ نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے۔

تیمور سلیم جھگڑا سے جب پوچھا گیا کہ 2020 میں نوشیروان برکی کی جانب سے بنی پالیسی کو اس وقت محکمہ صحت کے ساتھ شیئر کیا گیا تو کیا اب تک اس حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی؟ تو اس پر بھی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

صوبے کے ہسپتالوں کی نمائندہ تنظیم گرینڈ ہیلتھ الائنس نے ہسپتال کی جانب سے ملازمین کو نکالنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔

اس حوالے سے تنظیم کی جانب سے جاری ایک پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ ملازمین کو نکالنے کے لیے نوٹیفکیشن میں ایم ٹی آئی ایکٹ کی جس شق کا حوالہ دیا گیا ہے وہ آئندہ آنے والے ملازمین پر لاگو ہوگی اور ہسپتال میں اس وقت کام کرنے والے سرکاری ملازمین پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔

ہسپتال کی جانب سے ملازمین کو نکلانے کے لیے ایم ٹی آئی ایکٹ کی شق تھری اے کا حوالہ دیا گیا ہے۔

اس شق میں لکھا گیا ہے کہ ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت چلنے والے ہسپتالوں میں سرکاری ملازم ڈپیوٹیشن پر جا سکتے ہیں، لیکن اس شرط پر اگر ہسپتال کے بورڈ آف گورنر فیصلہ کریں کہ ان کو ملازمین کی ضرورت ہے۔ اگر یہ ملازمین ہسپتالوں میں ملازمت اختیار کریں تو ان پر سول سرونٹس ایکٹ 1973 لاگو ہوگا۔

تنظیم نے بتایا ہے کہ اگر نوٹیفیکشن واپس نہیں لیا گیا ہے تو وہ احتجاج پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہسپتالوں میں میرٹ کی بنیاد پر بھرتیاں ہوں اور ہسپتال کی بھرتیوں میں سیاسی اور ذاتی پسند سے بالاتر ہوکر بھرتیاں کی جا سکیں۔

اسی ہسپتال میں کام کرنے والے محکمہ صحت سے ڈیپوٹیشن پر جانے والے ایک ملازم نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ ہسپتال کے فیصلے کے بعد تمام ملازمین اپنے مستقبل کے لیے پریشان ہیں اور بقول ان کے: ’ہم تومحکمہ صحت سے آئے تھے لیکن ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ ہسپتال ہمیں دوبارہ واپس بھیج دے گا۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اب مسئلہ یہ ہے کہ میں پشاور میں محکمہ صحت کے ایک شعبے میں کام کرتا تھا لیکن اگر ہسپتال کی جانب سے مجھے نکالا جاتا ہے تو مجھے کوئی علم نہیں ہے کہ کیا میری پوسٹ خالی ہوگی یا مجھے کسی دور دراز ضلع میں ٹرانسفر کیا جائے گا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت