افغانستان میں مسلح تصادم اور دھماکوں میں اضافہ ہونے لگا

افغانستان میں حکام کے مطابق معتدد شہر سنیچر کو خوفناک دھماکوں سے گونج اٹھے جہاں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں سینیئر کمانڈر سمیت کم از کم چار اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

افغانستان میں حکام کے معتدد شہر سنیچر کو خوفناک دھماکوں سے گونج اٹھے (روئٹرز)

افغانستان میں حکام کے مطابق معتدد شہر سنیچر کو خوفناک دھماکوں سے گونج اٹھے جہاں سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں سینیئر کمانڈر سمیت کم از کم چار اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔

افغان حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملے مشرقی اور جنوبی صوبوں میں ہوئے جہاں سات اہلکار اور تین عام شہری شدید زخمی بھی ہوئے ہیں۔

تاحال کسی بھی عسکریت پسند گروہ نے ان تینوں حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔

ہفتے کی صبح جنوبی صوبے قندھار میں پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ دھماکہ خیز مواد سے بھری بکتر بند گاڑی نے صوبے میں ایک پولیس چوکی کو نشانہ بنایا جس میں سات اہلکار شدید زخمی ہوگئے۔

صوبائی پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ مشرقی صوبہ کنڑ کے چپا دارا ضلع میں سینیئر پولیس کمانڈر کو ایک بم کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ دھماکے کے نتیجے میں کمانڈر سمیت چار مقامی پولیس اہلکار ہلاک ہو گئے۔

اس کے علاوہ مشرقی صوبہ ننگرہار کے صدر مقام جلال آباد میں سڑک کنارے نصب بم دھماکے میں تین شہری زخمی ہوئے۔

اس سے قبل جمعے کی شب افغانستان کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ صوبے قندھار ہی کے ضلع ارغنداب میں ایک کارروائی میں 18 طالبان ہلاک اور نو زخمی ہو گئے۔

یہ حملے ایک ایسے وقت کیے گئے جب سرکاری فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں شدت آتی دکھائی دے رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ ہفتوں میں سڑک کنارے ہونے والے بم دھماکوں کے نتیجے میں سرکاری اہلکار، جج، صحافی اور سماجی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

یہ خونریزی ایک ایسے وقت ہو رہی ہے جب طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے مابین قطر میں امن مذاکرات کا عمل جاری ہے۔

دوسری جانب صدر جو بائیڈن کی ٹیم طالبان کے ساتھ اس امن معاہدے کا از سر نو جائزہ لے رہی ہے جس پر ان کے پیش رو ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال فروری میں دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے کے تحت چند شرائط کے بدلے تمام امریکی اور اتحادی افواج کو یکم مئی تک افغانستان سے انخلا کرنا ہے۔

جب اس معاہدے پر دستخط ہوئے تھے تو امریکہ نے افغانستان میں موجود 12 ہزار فوجیوں کی تعداد کم کر کے محض 2500 کر دی تھی لیکن معاہدے کے باوجود پر تشدد واقعات میں بدستور اضافہ جاری ہے جبکہ امریکی اور افغان حکام ان حملوں کے لیے طالبان پر الزامات عائد کر رہے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا