لاہور کا فش فارم جہاں تالاب نہیں ٹب میں مچھلیاں پالی جاتی ہیں

سعد یار خالد کا کہنا ہے کہ ’ماحول دوست اور کسان دوست‘ بائیوفلاک ٹیکنالوجی سے مچھلیوں کے کھانے پر خرچہ کم ہوتا ہے اور پانی بھی بچتا ہے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں سعد یار خالد نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا جدید فش فارم متعارف کرایا ہے جس میں نہ تالاب بنانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی مچھلیوں کی خوراک پر خرچہ ہوتا ہے۔

سعد یار خالد کا کہنا ہے کہ بائیوفلاک ٹیکنالوجی( بی ایف ٹی) پر پوری دنیا میں ریسرچ کی جارہی ہے ساتھ ساتھ بہت سارے ملکوں میں جیسے آسٹریلیا، انڈونیشیا، ملائشیا، تھائی لینڈاور بھارت میں کمرشل سطح پر استعمال کیاجارہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بی ایف ٹی کسان دوست اور  ماحول دوست ٹیکنالوجی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو  سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جس کے پاس یا تو بہت زمین نہیں ہے، یا فصلوں کے لیے پانی کم ہے یا جس کے پاس زمین بنجر ہے یہ ہر ان جگہوں پر استعمال کی جاسکتی ہے۔

سعد کے بقول اس ٹیکنالوجی کو بہت کم جگہ درکار ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’ایک ایکڑ زمین کے تالاب میں ہم آٹھ سو سے 12سو مچھلیاں ڈالتے ہیں، مگر اس ٹیکنالوجی سے ہم اتنی ہی تعداد 16ہزار سے 18ہزار لیٹر کے ٹینک میں ڈال سکتے ہیں ۔ہم کم جگہ اور کم پانی استعمال کر کے اتنی تعداد میں مچھلیاں پال سکتے ہیں اور اس میں قیمت کم ہوجاتی ہے، منافع بڑھ جاتاہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ٹیکنالوجی میں مچھلیوں کے اخراج کو بیکٹیریا میں تبدیل کیا جاتا ہے جسے مچھلیاں شوق سے کھاتی ہیں، اس سے ان کی خوراک کی لاگت روایتی فش فارمنگ کی نسبت 35سے 45فیصد تک کم ہو جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ روایتی فارمنگ میں سب سے بڑا خرچہ مچھلیوں کی خوراک ہوتی ہے اور دوسرا استعمال ہونے والا پانی، مچھلیوں کے لیے ایک ایکڑ کے برابر پورا تالاب بنانا پڑتا ہے جس سے بہت پانی ضائع ہوتا ہے۔

تاہم بائیوفلاک ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف مچھلیوں کے کھانے پر خرچہ کم ہوتا ہے بلکہ پانی بھی بچتا ہے کیونکہ کسی ٹب نما تالاب 15سے 18ہزار لیٹر کا ہوتا ہے جس کا حجم 16سے 18فٹ ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس ٹیکنالوجی کو ملک بھر میں متعارف کروانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ’ہم چاہتے ہیں کہ اس بارے میں لوگوں کو آگاہی دیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں ، چاہے وہ کمرشل ہو یا شوق سے مچھلیاں پالنے والے ہوں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس بارے میں لوگوں کو تربیت دے اور استعمال کا شعور پیدا کرے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان