امن مذاکرات مختلف ملکوں میں ہونے چاہییں: افغان سفیر

متحدہ عرب امارات میں تعینات افغان سفیر کا یہ بیان اشارہ کرتا ہے کہ قطر نے طالبان پر تشدد کو کم کرنے کے لیے کافی دباؤ نہیں ڈالا۔

افغان طالبان نے 2013 میں قطر میں اپنا دفتر کھولا تھا (فائل تصویر: اے ایف پی)

 

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے لیے افغان سفیر جاوید احمد نے کہا ہے کہ قطر میں تعطل کے شکار افغان امن مذاکرات کو دوسرے ملکوں میں بھی ہونا چاہیے۔ ان کا یہ بیان اشارہ کرتا ہے کہ قطر نے طالبان پر تشدد کو کم کرنے کے لیے کافی دباؤ نہیں ڈالا۔

افغان حکومت اور طالبان کے درمیان گذشتہ سال سے قطر میں مذاکرات ہوتے آ رہے ہیں لیکن افغانستان میں ہونے والے پرتشدد واقعات میں اضافہ ہو چکا ہے۔ دوسری جانب افغان حکومت نے طالبان جنگجوؤں پر تشدد کم کرنے میں ناکام ہونے کا الزام عائد کیا ہے۔

یو اے ای میں تعینات افغان سفیر جاوید احمد کا کہنا ہے کہ امن مذاکرات کو ایک جگہ محدود نہیں کرنا چاہیے اور انہیں دوسرے مقامات جیسے کہ یورپ، ایشیا، مشرق وسطیٰ اور افغانستان میں بھی منعقد ہونا چاہیے۔

یاد رہے کہ طالبان نے 2013 میں قطر میں اپنا دفتر کھولا تھا۔ افغان سفیر کے مطابق طالبان قطر میں ’بہت مطمئن‘ ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلیں۔

جاوید احمد کا کہنا تھا: ’قطر طالبان پر تشدد میں کمی لانے کے حوالے سے اپنا اہم کردار استعمال کر سکتا تھا لیکن اس نے اپنا اثر و رسوخ استعمال نہیں کیا۔ اگر وہ بطور میزبان طالبان رہنماؤں پر جنگ بندی یا تشدد میں کمی لانے کا مطالبہ کرتا تو ایسا ہو سکتا تھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب قطرحکومت کے رابطہ دفتر کا کہنا ہے کہ ’دوحہ مذاکرات کی میزبانی کرتے ہوئے وہ افغانوں کی حمایت جاری رکھے گا اور وہ تشدد میں کمی کا خواہاں ہے تاکہ ملک میں امن اور سکیورٹی قائم رہ سکے۔ یہ حقیقت کہ افغان حکومت اور طالبان کے نمائندے مذاکرات کی میز پر موجود ہیں، ظاہر کرتی ہے مذاکرات کام کر رہے ہیں۔‘

رواں ہفتے روس افغان امن عمل کی میزبانی کرے گا، اگلے مہینے ترکی میں ان مذاکرات کا انعقاد کیا جائے گا جبکہ امریکہ نے ایک عبوری انتظامیہ کے قیام کا خیال پیش کیا ہے۔

جاوید احمد کا کہنا ہے کہ افغانستان کی قومی حکومت میں طالبان اور سابقہ جنگجوؤں کی شمولیت بھی ممکن ہے لیکن اقتدار کی منتقلی صرف انتخابات سے ممکن ہے۔ دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ امن عمل میں شرکت کے حوالے سے سنجیدہ ہیں۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے فروری 2020 میں طالبان کے ساتھ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اس معاہدے کے تحت امریکہ نے یکم مئی تک اپنی فوج افغانستان سے نکالنی تھی لیکن تشدد میں اضافہ ہونے کے بعد نیٹو عہدے داروں کا کہنا ہے کہ طالبان نے بین الااقوامی عسکریت پسند گروہوں کے ساتھ اپنے تعلقات ختم کرنے کی شرائط پر عمل نہیں کیا، تاہم طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا