کرونا:’ایک ماہ ورزش نہ کرنے سے کھلاڑی ایک سال پیچھے چلا جاتا ہے‘

خیبر پختونخوا میں کرونا وائرس کے بڑھتے کیسز کے باعث تمام کھیلوں کی سرگرمیوں کو ملتوی کردیا گیا اور کھیلوں کی جگہیں بند کر دی گئی ہیں، جس سے کھلاڑیوں کی تنظمیں ناخوش ہیں۔

پاکستان کی نمبر ون بیڈمنٹن چیمپئن ماحور شہزاد کہتی ہیں کہ حکومت کی جانب سے کھیلوں کے میدان بند کرنے کا فیصلہ کھلاڑیوں کے لیے نہایت مایوس کن ہے (انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان بھر کی طرح خیبر پختونخوا میں بھی کرونا وبا کی تیسری لہر کے باعث تمام کھیلوں کی سرگرمیاں ملتوی کرنے کے ساتھ ساتھ تا حکم ثانی کھیلوں کی جگہوں کو بھی 14 مارچ سے بند کرنے کا حکم جاری ہوا ہے۔

اس حکومتی فیصلے پر مختلف کھلاڑیوں اور ان کی ایسوسی ایشنز نے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران پابندی کی وجہ سے کھلاڑی پہلے ہی مقابلوں کی سکت کھو چکے ہیں، اور نئی پابندی سے کھلاڑی مزید پیچھے چلے جائیں گے۔

ایسوسی ایشنز کے سربراہان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت اس طرح کے فیصلے لینے سے قبل پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن سے مشاورت کرتی تو انہیں اس بات کا علم ہوجاتا ہے کہ کئی کھیل ایسے ہیں جن میں سماجی فاصلہ برقرار رکھا جاسکتا ہے اور  کھلاڑیوں پر  پابندی لگانے کی ضرورت پیش نہ آتی۔

خیبر پختونخوا تائیکوانڈو ایسوسی ایشن کے صدر وقار آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایک کھلاڑی جب ایک مہینہ روزانہ مشق اور ورزش نہیں کرتا تو وہ ایک سال پیچھے چلا جاتا ہے۔

خیبر پختونخوا اولمپک ایسوسی ایشن کے رکن امجد خان نے کہا کہ اگرچہ کرونا کے بعد پہلی مرتبہ آن لائن کھیلوں اور مقابلوں کا رجحان بڑھا، تاہم انہوں نے کہا کہ جو فٹنس اور تربیت ایک کھلاڑی کو سپورٹس کے میدانوں میں ملتی ہے، وہ آن لائن کلاسز کے ذریعے ممکن نہیں ہے۔

پاکستان کی نمبر ون بیڈمنٹن چیمپئن ماحور شہزاد، جو پچھلے پانچ سال سے مسلسل بیڈمنٹن چیمپئن شپ جیتتی آرہی ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی جانب سے کھیلوں کے میدان بند کرنے کا فیصلہ کھلاڑیوں کے لیے نہایت مایوس کن ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں کرونا کی صورت حال کی وجہ سے اگرچہ عام لوگوں کے لیے کھیلوں کی عمارتیں بند کر دی گئی ہیں تاہم کھلاڑیوں کے لیے ایسی کوئی ممانعت نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’سوئٹزر لینڈ کی مثال ہی لیجیے، وہاں سپورٹس کی جگہیں عام لوگوں کے لیے بند اور کھلاڑیوں کے لیے کھلی رہتی ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں یہی صورت حال رہی تو ہم بین الاقوامی سطح پر مستقبل میں بہت پیچھے رہ جائیں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماحور شہزاد نے کہا کہ باوجود اس حقیقت کے کہ وہ کرونا کی پہلی لہر کے دوران اپنی فٹنس برقرار رکھنے کے لیے گھر میں روزانہ ورزش کرتی رہیں لیکن کھیلوں سے پابندی ہٹنے کے بعد جب انہیں دوبارہ میدان میں لوٹنا پڑا تو وہ کھیل کے لیے درکار  توانائی اور  فٹنس کھو چکی تھیں۔

’مجھے تین مہینے سخت محنت کرنا پڑی۔ جو کھلاڑی گھر میں سستی کا شکار ہو جاتے ہیں انہیں ایک سال لگے گا واپس اپنی پرانی جگہ پر  آنے کے لیے۔‘

پنجاب سے تعلق رکھنے والی انٹرنیشنل سکواش پلئیر روشنا محبوب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کھیلوں کی جگہوں پر پابندی کی وجہ سے خواتین کھلاڑی مزید پیچھے چلی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ ’مرد کھلاڑیوں کے برعکس خواتین کھلاڑی مشقیں اور ورزش کرنے کے لیےصرف سپورٹس کمپلکس ہی جا سکتی ہیں۔ گھر پر جتنی کیلیوریز  ہم کم کر سکتے تھے ہم نے کیں لیکن کھیلوں کے لیے درکار فٹنس ہمیں گھر پر نہیں مل سکتی۔ ارباب اختیار کو اس کا کوئی فوری حل نکالنا چاہیے، سب کھلاڑی پریشان ہیں۔‘

 کرونا وبا کی پہلی لہر کے بعد پچھلے سال 10 اگست کو خیبر پختونخوا حکومت نے کھیلوں کی سرگرمیاں بحال کر دی تھیں۔

تاہم صرف سات ماہ بعد ان پر دوبارہ پابندی لگائی گئی ہے۔ ان سات مہینوں کے اندر کئی بین الاضلاعی اور  بین الصوبائی مقابلوں کے لیے تیاریاں شروع ہوئیں۔

کھلاڑیوں نے اپنی توانائی بڑھانے اور اچھی کارکردگی دکھانے کے لیے انتھک محنت کی لیکن جب میدان میں اترنے کا وقت آیا تو انہیں ایک نئی پابندی کا سامنا کرنا پڑ  رہا ہے۔

مارچ اور اپریل کے مہینے میں ہونے والے کھیل جو نئی پابندی کی وجہ سے ملتوی ہوئے ان میں انڈر 21 گیمز، سیکنڈ آئی جی ایف سی نیشنل تائیکوانڈو چیمپئن شپ جو  جنوبی وزیرستان میں ہونے جارہے تھے، آل پاکستان جونئیر سکواش چیمپئن شپ، بیڈمنٹن نیشنل رینکنگ چیمپئن شپ اور دیگر کئی اہم مقابلے شامل تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کھیل